کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 23
وھذا الذي قاله ھٰولاء الائمة لا خلاف بين المفسرين (ص ۵۲/۲)
امام ابن قتیبہ (۲۷۶ھ/۸۸۹ء)فرماتے ہیں ۔
الوسيلة القربة الزلفٰي
امام ابو الحسن السندی نزیل المدینۃ (ف ۱۱۳۸ھ)لکھتے ہیں ۔
قيل ھي في اللغة المنزلة عند الملك (حاشيه ابن ماجه)
امام نووی (ف )فرماتے ہیں :
قال اھل اللغة الوسيلة المنزلة عند الملك (شرح مسلم)
امام ابن جریر (ف ۳۱۰ھ)فرماتے ہیں :
يعني بالوسيلة القربة وكذا قال القرطبي (ف ۶۷۱ھ)الوسيلة القربة
امام سخاوی نے فراء کا بھی یہی قول نقل کیا ہے (القول البدیع)
الغرض: ائمۂ لغت، ائمۂ مفسرین (من الصحابة والتابعین)اس معنی میں یک زبان ہیں کہ اس کے معنی قرب، مرتبہ اور ذریعہ ہیں ۔ یہاں مرتبہ اور قرب سے مراد، قرب شاہی ہے۔
شرعی مفہوم: شرعی مفہوم دو ہیں :
۱۔ ایک وہ مقام جو بہشت میں سب سے اونچا اور خدا سے قریب تر ہے، جس کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی امت سے، خدا سے دعا کرنے کو کہا ہے۔
سلوا اللّٰه لي الوسيلة (مسلم، ابو داؤد، نسائی، ترمذی، بیہقی والقاضی)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ! وسیلہ کیا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا!
ما الوسيلة يا رسول اللّٰه!
فرمایا: یہ بہشت میں اعلیٰ درجہ کا نام ہے۔
اعلٰي درجة في الجنة (القول البديع للسخاوي بحواله عبد الرزاق وغيره وفيه الليث)
بعض روایات میں فانھا منزلة في الجنة (مسلم وغیرہ)آیا ہے۔
بہتر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مبارک تفسیر کے بعد ’’الوسيلة‘‘ کے دوسرے معنی تلاش ہی نہ کیے جائیں کیونکہ اس کی تفسیر اور نشاندہی، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بہتر اور کوئی نہیں کر سکتا۔ اس لئے جن آیات میں ’’الوسيلة‘‘ کا ذکر آیا ہے۔ اس سے مراد یہی قربِ الٰہی تصور کیا جائے، جس کا حاصل یہ ہے کہ کسی اور لالچ کے بجائے خدا یابی کا جذبہ کار فرما رہنا چاہئے، کیونکہ خدا مل گیا تو سبھی کچھ مل گیا۔ ؎