کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 21
محض ’’ماحضر‘‘ (اس کارخانۂ ہستی میں جو کچھ ان کے سامنے ہے)کے مشاہدہ اور اپنی ذات کے مطالعہ سے زبان اور دل سے خدا کی تسبیح و تدیس کے راگ الاپنا شروع کر دیتا ہے۔ کیونکہ یہاں عدم رسائی کے علاوہ مخالف تحریص و ترغیب کے دواعی کی مزاحمت بھی موجود ہوتی ہے مگر اس کے باوجود وہ وہاں پہنچ جاتا ہے، جہاں مشاہدہ کے بعد اور پھر کسی مزاحمت کے بغیر ملائکہ کرام پہنچ پاتے ہیں ۔
قلب و نگاہ کے اذعان، طمانیت اور ہمنوائی کے بغیر تسبیح و تقدیس کے زمزمے ہو سکتا ہے کہ ایک صالح مشق اور مبارک ریہرسل ثابت ہوں اور آگے چل کر وہ واقعۃً تسبیح خواں بھی بن جائے۔ بہرحال بہ حالات موجودہ وہ ’’بے روح‘‘ ہی تصور کیے جائیں گے، اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ ’’مومن حقیقت پسند اور باذوق‘‘ ہستی کا نام ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں ہے تو وہ کامل مومن نہیں ہے۔
ہمارے نزدیک دورِ جدید کے ثقافتی وار ادیب جو مہم ہے ہیں وہ ’’بندۂ مومن‘ کے اِسی مبارک ذوق کو فنا کرنے کے لئے ایک سازش ہے۔ یہ لوگ اس ذوق کی آبیاری میں مصروف ہیں جو بہیمیت اور نفس و طاغوت کے لئے عیش کے دستر خوان بچھاتا ہے لیکن اس ذوق کی راہ مارتے ہیں جو انفس و آفاق کے مطالعہ اور مشاہدہ کے بعد انسان کو خدا جوئی کے لئے یکسر گرم اور حنیف بنا سکتا ہے۔
تسبیح و تقدیس دراصل اسلامی ادب اور ثقافت کا منتہاء ہے، جس سے خدایابی کے لئے پاس تیز تر ہوتی ہے اور رعنائیوں کے مشاہدہ سے سفلی جذبات میں تحریک پیدا ہونے کے بجائے حسن و خوبیوں ، دلآویزیوں اور تمام رعنائیوں کے خالق کی طرف دل لپکنے لگتا ہے اور زبان سے اس کی تسبیح و تقدیس کے بے ساختہ زمزمے بلند ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔
کاش! عالمِ اسلام اس نظامِ ثقافت پر نظر ثانی کر سکے جو فنونِ لطیفہ اور ثقافت کے نام پر ان کے ہاں پروان چڑھ رہا ہے اور ان کی فتنہ سامانی اور سنگینی کا ابھی سے احساس کرے۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ کل رنگ و بو نواز تو مل جائیں لیکن خدا شناس نگاہ کا قحط پڑ جائے گا جیسا کہ حالات کے تیور بتاتے ہیں کہ تسبیح خواں جوہری اُٹھتے جا رہے ہیں اور لذتیت پر جان چھڑکنے والے جانور بڑھتے جا رہے ہیں ۔ بہرحال کل خدا کے ہاں اس کی باز پرس اس ’قیادت‘ سے بھی ہو گی جو عالمِ اسلام میں اب برپا ہے اور ان فتنوں کی فتنہ سامانیوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے یا ان کی سنگینی کے احساس سے محروم اور غافل ہے۔