کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 20
وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ اور (بناتے ہیں تو ہم کو بنائیں کہ)ہم تیری حمد و (ثناء)کے ساتھ تیری تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں ۔ __________________________________________ چاہتے ہیں کہ یہ زمین آباد رہے، سو وہ نیک ہوں یا بد، بہرحال اپنی ضرورت کو اسے تو وہ ہر حال میں آباد رکھیں گے ہی۔ باقی رہی تعمیر کے ساتھ ساتھ ’تخریب‘؟ تو تعمیر کا یہ قدرتی داعیہ ہوتا ہے جو حکمت کے منافی امر نہیں ہے بشرطیکہ تخریب سے کسی کی تخریب منظور نہ ہو بلکہ تخریب میں تعمیر ملحوظ ہو، اگر اس کے بجائے کسی کی تخریب کا جذبہ ہی کروٹ لے اور وہ پھر اسے خدا کی رضا کے لئے چھوڑ دے تو یہ بجائے خود نیکی بن جاتی ہے۔ مفسرین عظام رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس پر خاصی روشنی ڈالی ہے، کہ فرشتوں کو یہ کیسے محسوس ہوا کہ یہ انسان فساد فی الارض کا مرتکب ہو گا؟ ہمارے نزدیک صحیح تو یہ ہے کہ، ملائکہ صاحبِ اجتہاد بھی ہیں ، گو حکم کے تابع ہیں مگر مشینی پرزے والی کیفیت نہیں ہے کہ ان کو اس کا شعور بھی نہ ہو۔ باقی رہی یہ بات کہ وہ بات کیا تھی، جس پر انہوں نے غور کر کے نتیجہ نکالا؟ ہم کہتے ہیں یہ بھی خدا جانے، کیونکہ قرآن و حدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ جو باتیں بیان کی جاتی ہیں ، وہ بزرگوں کے قیاس ہیں ، جن سے پرہیز اولیٰ ہے، ورنہ غیر مختتم سوالات کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ نُسَبِّحُ (تسبیح کرتے ہیں )نُقَدِّسُ (ہم تقدیس کرتے ہیں )دونوں میں فرق ہے، تسبیح یہ ہے کہ عیوب اور نقائص سے منزہ اور پاک قرار دیا جائے، زبان سے بھی اور دل سے بھی۔ تقدیس یہ ہے کہ اسے تمام محاسن اور خوبیوں کی جامع ذات والا صفات تصوّر کیا جائے۔ ملائکہ کے لئے تو یہ عین ممکن ہے کیونکہ ان کو قرب حضور حاصل ہے، وہ ان تمام حقائق کا مشاہدہ کرتے ہیں ، جس کے بعد بے ساختہ زبان سے صدا بلند ہوتی ہے کہ الٰہی! تو ہر عیب اور نقص سے پاک اور تمام خوبیوں کا مالک ہے۔ ملائکہ حقائق کے بڑے جوہری ہیں ، اس لئے ان مشاہدات کے بعد سبحان الملک القدوس (مثلاً)کی زبان میں جو داد دیتے ہیں ، قابلِ غور ہوتی ہے۔ حق تعالیٰ نے ان کی اس ’عبدیت اور تحسین‘ کے دعوے کو غلط نہیں کیا بلکہ تسلیم کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ بہت ہی اونچے مقام پر فائز ہیں ، کیونکہ یہ بہت بڑے جوہری ہیں اور اس باب میں اس کو درجۂ استناد حاصل ہے لیکن خدا کے ہاں قرب و وصال کے لئے یہ سب سے آخری درجہ نہیں ہے بلکہ اس وقت یہ ثانوی درجہ رہ جاتا ہے جب کوئی شخص عالم ملکوت کی سیر اور انوار و تجلیات کے مشاہدہ کے بغیر