کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 19
احساس و جذبات کی زبان سے بے خبر تھی، خاکے تھے، ان میں رنگ بھرنے والا کوئی نہیں تھا، بوئے دلآویز کی لپیٹیں موجود تھیں ، قوت شامہ مفقود تھی، نگہ نواز رنگ سے دنیا بستی تھی، پر نگاہ ہی سرے سے معدوم تھی، نجد کی وادی تو تھی، کوئی دیوانہ نہ تھا، محمل تو تھا، لیلیٰ نہیں تھی، باغ تھا پر مالی نہیں تھا، دِل تو تھا مگر ولولہ نہیں تھا، دماغ تھا مگر پرواز نہ تھی۔ الغرض
تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم
پھول تھا زیبِ چمن ، پر نہ پریشاں تھی شمیم
کا سماں طاری تھا۔ ان حالات میں خدا نے چاہا کہ ابنِ آدم کو پیدا کر کے کار زارِ حیات کو گرما دیا جائے، باقی رہا یہ کہ ان میں عباد الرحمٰن کے ساتھ ساتھ، نفس و طاغوت کے غلام بھی ہوں گے، تو ہوتے رہیں ، کسی کے بنائے جو خدا بنا ہواسے تو فکر ہو سکتی ہے کہ، بے وفاؤں کی کثرت ہو گئی تو تختِ اقتدار کا کیا بنے گا، لیکن جو ذاتِ کریم اپنی سب حیثیتوں میں ان سب سے بے پروا اور بے نیاز ہے، اس کو ان بے وفاؤں کی کیا فکر؟ اپوزیشن کی آواز سے وہ ڈرتا اور دیتا ہے جو کوئی ’غرض‘ رکھتا ہے یا جس کی ہستی کا مدار کسی کے مٹانے اور بنانے پر موقوف ہوتا ہے۔ خدا تو ان سے بالاتر ہے۔ بہرحال انسان کے بغیر زمین اور کسی کے مصرف کی چیز نہیں تھی، اور فرشتوں کے تمام اندیشوں کے باوجود اسے لا بسایا اور آکر وہ بس گئے اور یوں بسے کہ اب اگر انہیں کوئی وہاں سے دھکیلے یا اس کا ان کو اندیشہ لاحق ہو جائے تو گلے پڑ جاتے ہیں ۔ دفاع کی حد تک تو مزاحمت مبارک ہے جس کا نہایت معصومانہ طریقے سے فرشتوں نے بھی مظاہرہ کیا۔ اس لئے اگر یہ بات ’’عدم استحقاق‘‘ کی بات ٹھہرتی تو بات خود فرشتوں کے لئے بھی حسبِ منشا نہ رہتی۔
یہاں پر خدا کی نگاہ کم کے بجائے کیف پر ہے۔ بے روح محض عددی کثرت کا خدا کے ہاں کوئی وزن نہیں ، اس کی نگاہ اس دل پر رہتی ہے جو ’’خدا شناس‘ ہوتا ہے۔ نمردوں سے بھرے بابل میں اگر ایک ہی ’حنیف‘ نمودار ہو گیا ہے تو تخلیقِ آدم میں جو حکمت ملحوظ تھی، خدا کے نزدیک اب اس کا بھی حق ادا ہو گیا۔ خدا کے ہاں گننے کی بات نہیں ، تولنے کی ہے۔ بھاری بھر کم پہاڑوں کی تہوں میں جو ایک لعل نہاں ہے، وہ سارے پہاڑ پر بھاری ہے۔ اس لئے خیر و شر کی اس رزمگاہ میں تحریص و ترغیب کے پہاڑوں کو پھینک کر جو شخص صرف خدا یابی کے لئے کوہ کنی کرتا ہے، خدا کے ہاں وہ فرہاد جو راہِ حق میں کوہ کنی میں مصروف ہے ان معصوم فرشتوں سے زیادہ قیمتی ہے جو کسی خارجی یا داخلی مزاحمت کے بغیر تکوینی طور پر اس کے حضور اس کے غلام رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ خدا