کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 18
دراصل اپنے قدرتی استحقاق اور مقامِ قرب و وصال کے سلسلے میں اپنی حسرت کا اظہار تھا۔ ہمارے نزدیک یہ بے چینی ’’خطاء‘‘ نہیں ، عین عبادت ہے۔ کیونکہ یہ سبھی کچھ اسے ہی چاہنے کے لئے تو ہے۔ ان کو فکر ہے تو یہ کہ محبوبِ برحق کے پاس پہلے ہم تھے اب وہ ہوں گے۔ بہرحال یہ فکر اور احساس مطلوب بھی اور محمود بھی۔ اس لئے یہ بھی ایک گونہ عبادت کہلائی۔
ملائکہ نے اللہ تعالیٰ سے بطور استعجاب کے کہا کہ: جسے نیابت پر فائز کیا جا رہا ہے، وہ تو بہت ہی خود غرض ہو گا، اس لئے فساد فی الارض اور خونریزی بھی ہو گی، دراصل فرشتے یہ اعتراض نہیں کر رہے ہیں بلکہ اپنے جذبات کا اظہار فرما رہے ہیں کہ تیرے مقامِ قدس میں ان کی یہ شوخی سوء ادبی محسوس ہوتی ہے، جیسا کہ ملائکہ پر ہر معصیت سے انقلابی کیفیت طاری ہوتی ہے، یہاں بھی ہوئی۔
دراصل یہ بات ان کی صالح فطرت اور پاکیزہ سرشت کی غماز ہے۔ بغض باطن کی بات نہیں ۔ بغض اور انقباض کی بھی جو کیفیت ہے وہ بھی الحب للہ والبغض للہ کی آئینہ دار ہے، اغراض سیئہ کی پیداوار نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک یہ نفسیات مبارک ہوتی ہیں اور ترقیٔ درجات کی موجب بھی۔
ملائکہ کا کہنا ہے کہ تیری پاک جناب میں پاک بندوں کی حاضری سجتی ہے، یہ بات بالکل بجا ہے اور عشاقِ برحق کے احساسات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ اپنے حبیب کے سلسلے میں انہی آداب کا التزام رکھیں اور انہیں کیفیات کے متمنّی رہیں ۔ اس لئے انہوں نے خدا سے درخواست کی کہ الٰہی! انہی آداب کے ساتھ تو صرف ہم ہی آپ کے حضور حاضر ہرتے ہیں ان کو ہمارے بجائے آخر کس لئے برداشت کیا جا رہا ہے؟ الٰہی! تیرے حضور وہ یونہی رہیں ؟ ہم با ادب خدام سے یہ بات نہیں دیکھی جا سکتی، خدایا! تیرے لئے، اور صرف تیری ہی خاطر ہماری جان پر بن جاتی ہے۔
حق تعالیٰ نے فرشتوں کے اندیشوں کو رد نہیں کیا، لیکن اس پر جو بات انہوں نے متفرع کی یا اس پر جو نتیجہ مرتب کیا اس کے متعلق وضاحت فرمائی کہ، اس کے باوجود اس کی تخلیق میں جو حکمت ملحوظ ہے، وہ آپ کے سامنے نہیں ہے (انی اعلم ما لا تعلمون)
یعنی ارض و سما میں پہلے جو نظام قائم تھا، وہ سرتاپا ’تکوینی‘ تھا، تشریعی نہیں تھا، پھول تھے، کانٹے نہیں تھے، سفر تھا اختتام نہیں تھا، کام تھا، انجام نہیں تھا، عرفان تھا، امتحان نہیں تھا، قدرت تھی، اختیار نہیں تھا۔ اتباع تھی، تخلیق نہیں تھی۔ کسی کی سوچ پر زندگی رقصاں تھی، اپنی سوچ کا دخل نہیں تھا، سوچ کی صلاحیت تھی تو خود مختار نہیں تھی، عبدیت تھی، حریتِ فکر سے آراستہ نہیں تھی، عقدے تھے، عقدہ کشائی کا جنون نہیں تھا، تقلید تھی، نفوذ سے نگاہ خالی تھی، سراپا تسلیم خو کی دنیا آباد تھی، لیکن