کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 17
التفسیر والتعبیر مولانا عزیز زبیدی واربرٹن سورۃ البقرہ (قسط ۱۲) قَالُوْا اَتَجْعَلُ ۱؎فِيْھَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْھَا وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ (تو فرشتے)بولے کیا آپ زمین میں ایسے شخص کو (خلیفہ)بناتے ہیں جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرے ۱؎ اَتَجْعَلُ (کیا آپ بناتے ہیں ، کیا بنانے لگے ہیں )جَعَلَ چار معنوں میں مستعمل ہے (۱)بمعنی طَفِیْ (شروع کرنے لگے ہین)(۲)اَوْجد (پیدا کیا)یہاں پر یہ دونوں معنی صحیح ہیں (۳)ایک چیز کو دوسری شے سے بنانا (۴)تصییر (کسی شے کو ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل کرنا) اللہ نے فرشتوں سے بات کی تی کہ میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں ، فرشتوں سے مشورہ نہیں تھا، بلکہ روئے زمین پر انقلابِ قیادت کا ایک شاہی اعلان تھا۔ نیابت کے اس تصوّر کے معنی ؎ ’’بعد از خدا بزرگ توئی‘‘ کے تھے ، ظاہر ہے یہ وہ مقامِ قرب ہے، جس پر پہلے ملائکہ فائز تھے، اس لئے اگر اس پر ملائکہ کو حیرت ہوئی یا رشک؟ تو یہ ایک قدرتی بات تھی، ملائکہ معصوم عن الخطاء تو ضرور ہیں لیکن پتھرنہیں ہیں کہ ان کے اپنے کچھ احساسات نہ ہوں ، ان کو اس اعلان پر جو تشویش ہوئی، وہ ہونی چاہئے تھی۔ اور بالکل یوں جیسے اپنے حبیب کے سلسلے میں ایک دیوانہ کو ہو سکتی ہے، گو وہ چاہتا ہے کہ سب ہی اسے چاہیں لیکن حبیب تک پہنچنے کا واسطہ بھی وہی رہیں ؟ ظاہر ہے ہزار عالی ظرفی کے باوجود ایک دیوانہ کے لئے یہ ایثار گوارا نہیں ہوتا۔ ہاں اگر اسے حبیب کا اشارہ ہو جائے کہ ہمیں یہی پسند ہے تو پھر اسے اس پر بھی ’’معراج وصال‘‘ محسوس ہونے لگ جاتی ہے (فسجدوا)بس اس قصے میں بھی یہی معنوی اقدار کار فرما ہیں ۔ ملائکہ کا خدا سے ’’ابنِ آدم‘‘ کی سرشت اور اپنی فطرت کا موازنہ پیش کرنا،