کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 16
عبد الرحمٰن عاجزؔ مالیر کوٹلوی
پاسبانِ حرم تغمدہ اللہ برحمتہ
جل رہا ہے آتشِ حسرت میں ہر پروانہ آج بجھ گئی اِک اور شمعِ محفلِ جانا نہ آج
پھول افسردہ، کلی یژمردہ، غنچے سرنگوں گلستانِ دہر بن کر رہ گیا ویرانہ آج
خون ہو کر بہہ گیا دل دیدۂ بے تاب سے ہو گیا خالی چھلک کر صبر کا پیمانہ آج
آہ وہ سُلطانِ فیصل، وہ حرم کا پاسباں کل تھا سب کا آشنا ’اُف‘ سب سے ہے بیگانہ آج
وحدتِ ملّی کے غم میں کُوبہ کُو دیوانہ وار دوڑتا پھرتا تھا جو، وہ چل بسا دیوانہ آج
دے رہا تھا جو ہمیں کل تک پیامِ دوستی چل دیا خود توڑ کر ہم سے وہی یارانہ آج
آہ کل تک جو صدائے ہر دلِ مظلوم تھا قتل اس کو کر دیا ظالم نے بے باکانہ آج
اتحاد باہمی جس کے تدبّر کا نشاں چل بسا وہ عالم اسلام کا فرزانہ آج
یہ فروغِ علمِ دیں ، یہ شانِ توسیعِ حرم ہیں کہیں ایسے نقوشِ ہمتِ مردانہ آج
بادشاہی جس کی تھی صد غیرتِ جمہوریت کیوں نہ پھر جمہور ڈھونڈے اس کو بیتابانہ آج
ہر فسانہ جس سے کل تکتھا حقیقت آشنا ہر حقیقت بن گئی اس کی بس اک افسانہ آج
حق دلاتا تھا جو ہر ظالم سے ہر مظلوم کا رہ گیا قربان ہو کر خود ہی مظلومانہ آج
اک جھلک جس کی دوائے دردِ چشم شوق تھی چل دیا منہ ڈھانپ کر وہ رونقِ کاشانہ آج
جس کا دل مومن کے دل کے درد سے لبریز تھا سو رہا ہے قبر میں ہر درد سے بیگانہ آج
جس کے سر پر فخر کرتا تھا جہاں بانی کا تاج چل بسا وہ چھوڑ کر سب شوکتِ شاہانہ آج
ہر گھڑی جو نغمۂ توحید سے سرشار تھا کر گیا جامِ شہادت نوش وہ مستانہ آج
وقف تھے جس کے خزانے ملک و ملّت کے لئے اس نے اپنی جان کا بھی دے دیا نذرانہ آج
بن گیا تفسیر کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَان کی اُٹھ گیا دنیائے دوں سے اس کا آب و دانہ آج
ہے یہ بے شک اس کے حُسنِ خلق کی زندہ مثال موت پر گریاں ہے اس کی اپنا اور بیگانہ آج
تو ہی اس کے غم میں اے عاجزؔ نہیں زار و نزار کتنی آنکھیں ڈھونڈتی ہیں اس کو مشتاقانہ آج
شاہ خالد، شاہ فیصل کے ہوں سچے جانشیں پُر ہو جو خالی ہوئی ہے مسندِ شاہانہ آج