کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 15
یا اسلامی خلفاء تھے، میں ایمان والوں کا خادم ہوں اور مسلمانوں کا نوکر ہوں ۔‘‘ چونکہ اخبارات ’’جلالۃ الملک‘‘ کا لقب برابر استعمال کرتے رہتے تھے اس لئے آپ وقتاً فوقتاً اس پر ٹوکتے رہتے تھے۔ ۱۹۷۴؁ء کی اسلامی کانفرنس کے موقع پر وفد کے ترجمان جناب کامل الشریف نے اپنی تقریر میں جلالۃ الملک کا لفظ استعمال کیا، تقریر کے بعد شاہ فیصل علیہ الرحمۃ نے کہا کہ مجھے اس تقریر پر یہ اعتراض ہے کہ مسلمانوں کے ایک ادنیٰ خادم کو جلالۃ الملک کہا گیا ہے جو کسی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ (نوائے وقت ؍ ۳۰ مارچ) الغرض: شاہ فیصل رحمۃ اللہ علیہ ایک بندۂ حنیف، اوّاہ، بندۂ غیور، ملتِ اسلامیہ کے عظیم رہنما اور مسلمانانِ عالم کے روحانی باپ تھے، ہمارے سر سے ان کے سایۂ رحمت کے اُٹھ جانے سے ہم یتیم ہو گئے ہیں ۔ قبرص کے مسلمانوں پر کوئی آنچ آئے یا کشمیری مسلمانوں کے مستقبل کا سوال اُٹھے، فلسطین کی آزادی کا قصہ ہو یا صیہونیت کی یوش سے عالم عرب کو بچانے کی کوئی بات ہو، پاکستان کے خلاف بھارت کی شرارتیں ہوں یا بنگلہ دیش کی بے حمیتی کا کوئی واقعہ ہو۔ اریٹیریا کے مسلمانوں کا المیہ ہو یا فلپائنیوں کا آپ بہرحال بے چین ہو جاتے تھے، مرحوم ایک خدا ترس، غریب پرور، دینی تحریکوں کے سرپرست وحدتِ ملی کے نقیب اور عالمِ اسلام کے غمگسار تھے۔ پاکستان پر جو بیت رہی ہے اور جن خطرات میں وہ گھرا ہوا ہے، مرحوم کو اس کا شدید صدمہ تھا، جب سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا تو صدمہ کی شدت سے ان کی آنکھیں دیر تک اشکبار رہیں اور وہ کئی راتوں تک سو نہ سکے۔ کہتے ہیں کہ ایک دوست نے سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد شاہ سے کہا کہ: ’’اب شاید پاکستان کے لئے خود پاکستان کے اندر بھی کوئی رونے والا نہ ہو۔‘‘ شاہ نے کہا کہ: ’’میں اس لئے روتا ہوں کہ شاید پاکستان کے لئے اب اور کوئی رونے والا نہیں رہا۔‘‘ شاہ فیصل رحمۃ اللہ علیہ حرم کے عظیم پاسبان اور کتاب و سنت کے بیدار چشم دربان تھے اور شایان شان تھے، ان کی شہادت سے ہمیں سخت دکھ ہوا ہے، خدا کے لئے تو کوئی بات بھی مشکل نہیں ، تاہم بظاہر فی الحال مستقبل قریب میں اس کی تلافی ہمیں بہت ہی مشکل نظر آتی ہے۔