کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 14
آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ معروف معنوں میں سعودی حکومت کا کوئی مدون دستور نہیں ہے کیونکہ ان کا دستور قرآن و سنت ہے اور وہ صدیوں پہلے موجود ہے۔ باقی رہا قرآنی آئین اور دستور کو کیوں مدون اور مرتب نہیں کیا گیا؟ تو صرف اس لئے کہ اس میں اجتہاد کو بھی دخل ہوتا ہے جس طرح حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے مؤطا مالک کو عباسیہ مملکت کا ملکی دستور بنانے کی اجازت نہیں دی تھی اسی طرح انہوں نے بھی اپنی طرف سے کوئی چیز مسلمانوں پر مسلط کرنے سے پرہیز کیا ہے بلکہ علماء اور قضاۃ کی صوابدید پر چھوڑا ہے کہ وہ ان کا کیا مفہوم متعین کرتے ہیں ؟ ہمارے نزدیک اسلامی دستور کی یہ وہ خوبی ہے جو دنیا کے دوسرے دساتیر میں نہیں پائی جاتی۔ توحید کے سلسلے میں مرحوم انتہائی ذکی الحِس واقع ہوئے تھے، جو بات حق تعالیٰ کے شایان ہوتی اسے کسی دوسرے کے حق میں استعمال کرنے سے نفرت کرتے تھے۔ میاں طفیل محمد امیر جماعت اسلامی نے بتایا کہ: ہمارے وفد کے ترجمان نے شاہ فیصل کو مخاطب کرنے کے لئے ’’ہزمیجسٹی جلالۃ الملک‘ کے الفاظ استعمال کیے۔ اس پر شاہ فیصل نے فوراً ٹوکا اور کہا کہ: جلالۃ الملک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، میں نہ ہزمیجسٹی ہوں اور نہ جلالۃ املک، میں مسلمانوں اور اسلام کا ادنیٰ خادم ہوں اور یہ میری خوش بختی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا موقع عطا فرمایا ہے اور میں حرمین شریفین کی خدمت کر رہا ہوں (وفاق) ۱۹۶۴؁ء میں جب شاہ فیصل علیہ الرحمۃ کی تخت نشینی ہوئی تو سعودی وزیرِ اطلاعات نے ریاض ریڈیو سے دو ایسے لفظ استعمال کیے جو شاہِ فیصل کے اسلامی احساسات کے منافی تھے۔ ایک خطاب ’’جلالۃ الملک‘‘ کا دوسرا مملک سعودیہ کے تخت کو ’’عرش المملکۃ السعودیہ‘‘ سے تعبیر کیا۔ حضرت علیہ الرحمۃ انےان دونوں لفظوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ: کوئی انسان ’’جلالت مآب‘‘ نہیں ہے بلکہ صرف اللہ تعالیٰ جل جلالہ کو جلال و عظمت سزاوار ہے اور اس کائنات میں اللہ کے عرش کے سوا کسی کا کوئی عرش نہیں ہے، میں اللہ کا عاجز بندہ ہوں اور مسلمانوں کی خدمت میرے سپرد کی گئی ہے۔ مدینہ یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کے سپاسنامے کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: میں جامعہ کے نائب صدر کے اس بیان کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس میں انہوں نے مجھے ’ایمان والوں کا بادشاہ‘ کہا ہے، میں کہتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا جتنے ایمان والوں کے بادشاہ