کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 13
اس سے کس طرح محبت ہو سکتی ہے۔ (وفاق، ۲۸؍ مارچ)
پروفیسر غلام اعظم نے حالیہ حج کے موقعہ پر شاہ فیصل سے ملاقات کی اور ان سے دریافت کیا کہ آپ نے بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا...... آپ کے اس اقدام کا سبب کیا ہے؟ شاہ فیصل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
میں بنگلہ دیش کو کیسے تسلیم کر سکتا ہوں ، مجیب نے اسلامی ریاست کا ایک حصہ کاٹنے کے بعد اس کو لادینی مملکت قرار دے دیا ہے۔ جب تک مجیب یہ اعلان نہ کر دے کہ بنگلہ دیش اسلامی ریاست ہے، میں اسے کبھی تسلیم نہیں کروں گا۔ (وفاق۔ ۲۸؍ مارچ)
جب ہم نے شاہ فیصل رحمۃ اللہ علیہ کا یہ غیرت مندانہ بیان پڑھا تو شرم سے ہماری گردن جھک گئی، کیونکہ پوری قوم کی مرضی کے علی الرغم دینی غیرت اور ملی حمیت کے برعکس مسٹر بھٹو نے عالمِ اسلام کے تمام سربراہوں کی موجودگی میں اسے تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ انا للہ!
آپ کے نزدیک یہ ’اصولِ برحق‘ صرف دوستی اور دشمنی یا اخذ و ترک کا معیار نہیں تھا بلکہ آپ کے نزدیک یہ دینی، تمام مکارمِ حیات اور معراجِ زندگی کا ضامن بھی ہے۔ ۱۹۶۶ء میں دورۂ پاکستان کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا۔
ہمارے دین اور اس کے قوانین میں وہ سب کچھ موجود ہے جو ہمیں ان کمتر نظریات کو درآمد کرنے سے بے نیاز کر سکتا ہے، جسے محض انسانوں نے تیار کیا ہے، کیونکہ اسلام خدا تعالیٰ کا قانون ہے، جسے اس نے اپنے پیغمبر پر نازل کیا اور وہ اپنی تخلیق کے مفادات کو بہتر طور پر جاتا ہے۔
شاہِ ایران کی طرف سے دیئے گئے عشائیہ میں شاہ فیصل نے کہا۔ اعلیٰ حضرت! ہمارا مذہب ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم ترقی کریں اور آگے بڑھیں اور اعلیٰ روایات اور بہترین اطوار کا بار اُٹھائیں ۔ آج کے دور میں جس چیز کو ترقی پسندی کہا جاتا ہے اور جس کے لئے مصلحین شور مچاتے ہیں ۔ خواہ یہ ترقی سماجی، انسانی یا اقتصادی ہو، دین اسلام اور اس کے قوانین میں مکمل طور پر موجود ہے لیکن اس کے لئے ضرورت ہے کہ ہم اسے اپنے مذہب میں تلاش کرنے کی زحمت گوارا کریں ۔ ۱۹۶۵ء میں دورۂ ایران)
۱۹۶۴ء میں جب آپ کی تخت نشینی ہوئی تو آپ نے اعلان کیا کہ:
میں جس دستور کی پابندی اور وفاداری کا حلف اُٹھاتا ہوں وہ قرآن ہے، ہمارا دستور قرآن ہو گا اور ہم اپنی زندگی اور سلطنت کے امور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق طے کرینگے۔ (نوائے وقت ۳۰؍ مارچ)