کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 12
شاہی قبرستان کے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی دیواریں ہیں جو ریاض کے نواح میں واقع ہے۔ اس چار دیواری کے اندر بے نام و نشان قبریں ہیں جن میں شاہی خاندان کے دیگر افرادِ محوِ خواب ہیں ، سعودی روایات کے مطابق ان کی قبروں پر کتبہ ہے نہ لوح، بلکہ یہ قبریں بھی عام شہریوں کی قبروں کی طرح ہیں ۔ ان قبروں پر سنگِ مرمر کا کوئی کتبہ یا لکڑی پر کندہ کوئی تحریر نہیں اور نہ کوئی نشان ہے جسے قبر میں محوِ آرام شخصیت کا پتہ چل سکے۔ (نوائے وقت، ۳۰؍ مارچ) سعودی وارث تاج و تخت کو ’تاج‘ نہیں پہنایا جاتا۔ بلکہ نہایت سادگی سے ان کی امارت کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ (وفاق) دوپہر کا کھانا کھاتے تو عام مستری معمار وغیرہ کو جو اس وقت موقع پر موجود ہوتے، شریکِ طعام کر کے تناول فرماتے۔ (وفاق) عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ: شاہ بڑے تہجد گزار اور خدا کے حضور گریہ و زاری کرنے والے انسان تھے۔ ان کی آنکھیں ہمیشہ پرنم رہتی تھیں ، اشک بار رہنے کی وجہ سے ان کی آنکھوں کے نیچے گڑھے پڑ چکے تھے، دو تین سال ان کی کیفیت میں عجیب تبدیلی رُونما ہو چکی تھی، ان پر آخرت کا خوف بے پناہ حد تک طاری ہو چکا تھا اور وہ ہر دم موت کو یاد کرتے رہتے تھے۔ نیز کہا کہ: شاہ پوری نماز ادا کرنے کے بعد، اللہ کے حضور ایک طویل سجدہ کیا کرتے تھے، اس میں وہ تمام دعائیں دہراتے تھے جو سلطان عبد العزیز نے ایک مجموعے کی صورت میں مرتب کی ہیں ۔ (نوائے وقت، ۳۰؍ مارچ) آپ کو شخصیتوں کے بجائے اصولوں سے محبت تھی، جن کا جامع نام اسلام ہے۔ جہاں اسلامی حیا، غیرت اور کردار کا فقدان ہوتا وہاں ان کا جواب صاف ہوتا کہ: ﴿اِنَّا بُرَاءَآؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰه ﴾ لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر ایک دعوت میں شیخ مجیب الرحمٰن، شاہ فیصل کے ایک طرف اور مسٹر بھٹو دوسری طرف بیٹھے تھے، شیخ مجیب نے شکوہ کے طور پر شاہ فیصل سے کہا کہ آپ بھٹو سے میری نسبت زیادہ محبت کرتے ہیں ، شاہ فیصل نے کہا۔ اس میں شک نہیں کہ میں پاکستان سے محبت کرتا ہوں ، مجھے محبت بھٹو یا مجیب سے نہیں ، پاکستان سے ہے جو پاکستان کے لئے کام کرے مجھے اس سے محبت ہے اور جو پاکستان کی مخالفت کرے مجھے