کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 11
منگل کو شہزادہ فیصل عین اس وقت محل میں پہنچا جب کویت کا ایک وفد ایک وزیر کی قیادت میں شاہ فیصل کے پاس موجود تھا، اس کویتی وزیر نے ۱۹۶۹؁ء میں شہزادہ فیصل کے ساتھ کولوریڈو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی تھی اور دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ شہزادہ فیصل نے محل میں داخلے کے لئے بھی بہانہ تراشا تھا کہ وہ اپنے کویتی دوست سے ملنا چاہتا ہے۔ (نوائے وقت ۲؍ اپریل) شاہ فیصل کے قاتل کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ کمیونسٹ نظریات کا حامی ہے اور ’سرخ شہزادہ‘ کے نام سے مشہور ہے اور وہ ایک خفیہ ریڈیو سٹیشن سے ’سعودی عرب کی رجعت پسند بادشاہت‘ کے عنوان سے پروپیگنڈہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا ہے۔ بیروت کے اخبار ’لا اورئنٹ‘ کے مطابق شہزادے کے کار ڈرائیور کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے، جس وقت شہزادہ قاتلانہ حملہ کے لئے محل میں داخل ہوا وہ کار کو ادھر ادھر اس انداز میں چلاتا پھر رہا تھا جیسے وہ محل کا محافظ ہو۔ (نوائے وقت ۳۰؍ مارچ) شاہی خاندان نے ولی عہد خالد بن عبد العزیز کو متفقہ طور پر نیا بادشاہ منتخب کر لیا ہے اور شہزادہ فہد بن عبد العزیز کو ولی عہد بنا دیا گیا ہے۔ (نوائے وقت ۲۶؍ مارچ) اگلے دن مرحوم کو بعد نماز عصر ریاض کے مرکزی قبرستان میں ان کے والد شاہ ابن سعود کے پہلو میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ تدفین کے وقت ہزاروں بدو بھی موجود تھے، جب میت لحد میں اتاری گئی تو انہوں نے بھی دعا کی۔ ’’اے خدا! ہمارے روحانی باپ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرما۔‘‘ (امروز ۲۸؍ مارچ) شاہ فیصل موحد اور متبع سنت تھے شاہ فیصل درویش، شب زندہ دار، موحداور متبع سنت بادشاہ تھے۔ سرکش نہیں تھے۔ درویشی کا یہ عالم کہ: شاہی محل کے بجائے ہمیشہ ایک سادہ سے مکان میں رہائش رکھی، یہی حال ان کے دفتر کے کمرے کا تھا۔ ایک دفعہ ان کی خواب گاہ کے ملحقہ غسل خانے میں بہت قیمتی سامان لگایا تو آپ نے اسے نکلوا دیا اور کہا کہ: ’’ہم سادہ لوگ ہیں ہمیں سادہ چیزیں چاہئیں ۔‘‘ سادگی کا یہ رنگ قبر تک قائم رہا، چنانچہ اب بھی وہ ایک بے نام و نشان قبر میں ہی محو خواب ہیں ۔ اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ: