کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 8
مفید الاحناف
قسط نمبر ۱
ایک صورتِ ایتلاف!
مولانا حکیم محمد عبد الغفور صاحب رحمہ اللہ رمضان پوری بہادی
اصل دین کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد سامنے آتا ہے تو مسلمان لومۃ لائم سے بے نیاز ہو کر اس کے سامنے جھک جائے، اسلاف اور بزرگوں کا یہی طریقہ تھا۔ مندرجہ بالا مضمون یعنی مفید الاحناف اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس میں مصنف نے ثابت کیا ہے کہ یہ سب حنفی بزرگ تھے لیکن جب ان کے سامنے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحیح حدیث آگئی، تو انہوں نے مسلکی تعصب کو جگہ نہیں دی۔ بلکہ ایک سچے مومن اور خدا سے رنے والے ایک بندۂ حنیف اور مخلص مسلم کی طرح قرآن و حدیث کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ اللہ تعالیٰ ان پاک باز بزرگوں اور اپنے نیک بندوں پر اپنی رحمت کی بارش کرے جنہوں نے یہ ’’اُسوۂ حسنہ‘‘ پیش کر کے مسلمانوں کو سیدھی راہ دِکھائی۔
بات مسئلے کی نہیں ، فکر و نظر کی ہے، خدا کے سچے غلام مسئلے کو نہیں دیکھتے، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کسی نے مسئلہ پوچھا۔ انہوں نے بتا دیا۔ اس نے کہا۔ ’’آپ کے ابا جان حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تو یوں فرماتے ہیں ۔‘‘ فرمایا۔ ’’ اتباع، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چاہیے یا میرے ابا جان کا؟‘‘ اس نے کہا۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ آپ نے اس پر فرمایا۔ تو پھر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایسا ہی کیا ہے۔[1] بس اسی فکر و نظر کی کمی ہے۔ اگر یہ کسر پوری ہو جائے تو دنیا و آخرت کی سرفرازی کچھ زیادہ دور نہیں رہ جاتی۔ (ادارہ)
اعتذار:
مدیر ’’محدث‘‘ کی علالت کے سبب سے عربی عبارتوں کا لفظی ترجمہ بامحاورہ ہونے سے رہ گیا ہے، انشا اللہ باقی تمام میں اسکا اہتمام کیا جائیگا، ادارہ اس پر اپنے قارئین سے معذرت خواہ ہے۔ (ادارہ)
[1] الترمذی ( باب ماجاء فی التمتع )