کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 6
پہلے کی طرح اس کے ناپاک ارادے خاک میں ملائے جا سکیں ۔
حالیہ صورتِ حال ۱۹۶۵ کی جنگ سے زیادہ اہم ہے کیونکہ اُس وقت صرف بیرونی دشمنوں سے مقابلہ تھا لیکن اب اندرونی شر پسندوں کے پیدا کردہ انتشار کی وجہ سے داخلی و خارجی خطرات پیدا ہوئے ہیں ۔ اس لئے اب پاکستانی قوم کو دونوں محاذوں پر دفاع کی ضرورت ہے۔ اگرچہ صدر یحیٰ خاں نے ملکی سالمیت کی حفاظت بڑی دلیری سے کی ہے، تاہم یہ اقدام عارضی ہے اور مستقل تحفظ کی یہی ایک صورت ہے کہ ان اسباب کو ختم کیا جائے جو ان حالات کا باعث ہوئے ہیں ۔
مشرقی پاکستان یا پاکستان کے کسی دوسرے حصہ میں علاقائی جذبات اُبھارنے یا لسانی تعصبات بیدار کر کے نفرت کے بیج بونے، طبقاتی تقسیم پیدا کر کے حسد و بعض کی آگ بھڑکانے کا مطلب صرف یہ ہے کہ پاکستان میں قومی یکجہتی کو تباہ کر دیا جائے اور اس جداگانہ تشخص کو ختم کر دیا جائے جسکی بنیاد پر ہم بھارت سے الگ ہوئے تھے، نیز داخلی طور پر فتنہ و فساد کو ہوا دیکر ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں کہ پاکستان کا وجود ہی ختم ہو جائے۔ دراصل معاشرہ میں پیدا شدہ خرابیوں کے علاج کی بجائے اس قسم کے ہتھکنڈوں سے وہی لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں جو عوام کے دِلوں سے نظریۂ پاکستان کو عملی جامہ پہنانے کا احساس بھی ختم کر دنا چاہتے ہیں ، چنانچہ جن لیڈروں نے علاقائی یا دوسرے نفرت انگیز نعرے لگا کر قوم میں اتفاق و اتحاد کو ختم کرنے اور عملاً ملکی سالمیت کو تباہ کرنے کی کوششیں کی ہیں ان کا کردار یقیناً پاکستان سے غداری کے مترادف ہے۔
ہم اپنی گزارشات کے ساتھ ایک عظیم خطرہ سے آگاہ کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں جس کے آگ مضبوط بند باندھنے کے لئے متحدہ کوششیں ہی کار گر ہو سکیں گی۔ ہماری رائے میں ۱۹۶۵کی پاک و بھارت جنگ اور موجودہ انتشار ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں ، کیونکہ بھارت کو پاکستان اس لئے گوارا نہیں کہ یہ ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے جس کو وہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اِسی طرح جو لوگ علاقائی منافرت پیدا کر کے اسے تقسیم کرنا چاہتے