کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 5
چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہونے کی حیثیت سے صدر یحیٰ خان ہی کر سکتے تھے۔ اس کے بعد صدر مملکت نے اس بحران کو دور کرنے کے لئے اپنی کوششیں تیز تر کر دیں لیکن مصالحانہ مساعی ناکام رہیں ۔ اقتدار کے ہوس مند آزادیٔ سیاست سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر ملک کو تقسیم کرنے اور سامراجی طاقتوں کے عزائم کی تکمیل میں لگے رہے اور انہوں نے نظم و نسق کو تہہ و بالا کر کے شدید خطرناک حالات پیدا کر دیئے، حتیٰ کہ صدر یحییٰ خاں کو ۲۶ مارچ بروز جمعہ ایک ناگزیر سخت اقدام کرنا پڑا، جس کی تفصیلات عوام کے سامنے آچکی ہیں ۔
ہم اس اقدام کی مکمل تائید کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ۱۹۶۵ کی جنگ میں جس طرح افواجِ پاکستان نے بیرونی دشمنوں سے پاکستان کی حفاظت کی تھی اسی طرح اب اندرونی دشمنوں اور بیرونی سازشوں سے نپٹنا بھی ان کے لئے ضروری ہو گیا تھا۔ ملکی سالمیت کا یہی تقاضا تھا۔ صدر مملکت کے اعلان کے مطابق یہ وقتی اقدام ہے، جو ہنگامی حالات کے تحت کیا گیا ہے اور پوری قوم کا فرض ہے کہ ملکی استحکام کے لئے اپنا تعاون اسی طرح پیش کرے جس طرح پاک و بھارت کی گزشتہ جنگ میں کیا گیا تھا۔ آج ہم جن حالات سے دو چار ہیں ۔ دراصل ان کے پس پردہ بھارت اور دوسری اسلام دشمن طاقتوں کے مذموم عزائم کار فرما ہیں ۔ بھارت مغربی پاکستان پر فوج کشی کر کے منہ کی کھا چکا ہے۔ اب وہ مشرقی پاکستان پر نظر لگائے ہوئے ہے جس کے لئے وہ بہانے تلاش کر رہا ہے۔ مشرقی پاکستان کی سلجھتی ہوئی صورت حال نے اسے دیواہ بنا دیا ہے۔ اس لئے ایک طرف وہ مشرقی عوام کی ہمدردی کے نام پر شور و غوغا کر رہا ہے تاکہ بین الاقوامی حمایت حاصل کر سکے، دوسری طرف اس نے اپنے مسلح دستے اور ساز و سامان مشرقی پاکستان میں داخل کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ کردار واضح طور پر اس کے عزائم کی نقاب کشائی کر رہا ہے۔ یہ صورتِ حال پوری پاکستانی قوم کے اتحاد اور افواجِ پاکستان سے تعاون کی ضرورت مند ہے، تاکہ