کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 45
سے یہ کتاب طلبہ کیلئے نہایت موزوں اور مناسب تھی۔ مختلف ترجموں کے لحاظ سے اس کے مختلف نسخے رائج ہیں ۔
منصور کے زمانے میں ہونے والا ترجمہ دست برد زمانے سے نہ بچ سکا۔ تاریخ بھی اس بار میں خاموش ہے۔ اس کے بعد ترجمے ہوئے۔ ان کی سلامت اور روانی نے پہلے ترجموں کو مٹا ڈالا۔ ہارون الرشید کے دور (۱۷۰ھ۔ ۱۹۳) میں حجاج بن مطر نے یحییٰ بن خالد برمکی کے ایما پر ’’مبادیات‘‘ کا دوسرا ترجمہ کیا اور مامون کے عہد (۱۹۸ھ تاج ۲۱۸ھ) میں تیسری بار ترجمہ اسی نے کیا۔ ابن ندیم لکھتا ہے۔
’’حجاج نے اقلیدس کے دو ترجمے کئے۔ ایک نقلِ ہارونی کے نام سے مشہور ہوا اور دوسرا ترجمہ نقلِ مامونی کے نام سے مشہور ہے اور اسی پر اعتماد کیا جاتا ہے۔‘‘
اقلیدس کا چوتھا ترجمہ اسحاق بن حنین (م ۲۹۸ھ) نے کیا۔ اور مشہور مترجم ثابت بن قرہ نے اصلاح کی۔ ابن ندیم نے ’’الفہرست‘‘ میں اسحاق بن حنین کے ترجمے پر ثابت بن قرہ کی اصلاح کا ذِکر کیا ہے لیکن مستقل ترجمہ کا تذکرہ نہیں ہے۔ تاہم القفطی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ثابت نے ترجمہ بھی کیا تھا۔ غرضیکہ پانچواں ترجمہ ثابت بن قرہ نے کیا۔ ابن خلدون بھی ذکر کرتا ہے۔
متذکرۃ الصدر پانچوں ترجمے براہِ راست یونانی زبان سے ہوئے تھے۔ ٹی۔ ایل۔ ہیتھ (T. L. Health) رقم طراز ہے۔
"There seems to be no doubt that Ishaq wo must have known greek as well as his father made his translation direct from greek."
ثابت کے ترجمے کے بارے میں لکھتا ہے۔
Thabit undoubted by consulted greek