کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 42
’’راسی متقابلہ زاویوں کی مساوات‘‘ اور ‘‘متساوی الساقین کے قاعدہ کے زاویوں کی مساوات‘‘ سے تھیلز بخوبی واقف تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ نصف دائرے کا زاویہ قائمہ ہوتا ہے۔ ایک ضلع اور دو زاویوں سے وہ مثلث بنانا جانتا تھا۔ اس نے اہرامِ مصر کی بلندی ہندسی طریقے سے معلوم کی تھی۔ اسی طرح سمندر میں جاتے ہوئے جہاز کے فاصلے کا اندازہ لگانے کے لئے اس نے ہندسی طریقے اختیار کیے تھے۔
تھیلز (Theles) کے بعد اس علم کو اس کے نامور شاگرد فیثا غورث نے چار چاند لگائے۔ اس نے ریاضی دانوں کو جمع کیا اور ایک انجمن تشکیل کی جو فیثا غورثی برادری (Pythagoream Brotherhood) کہلاتی ہے۔ اس نے کروٹونا (Crotona) میں ریاضی کا مدرسہ کھولا۔ اس نے مثلث اور منتظم کثیر الاضلاع کے زاویوں کی مقدار کے اصول وضع کئے۔ وہ مثلث کو مساوی الرقبہ متوازی الاضلاع میں تحویل کرنے کے طریقے سے واقف تھا۔ تناسب (Proportion) مقادیراصم (Surd) کی ہندسی طریقے سے وضاحت کر سکتا تھا۔
فیثا غورث کی قائم کردہ انجمن کے ارکان انسگنیا (Insignia) کے طور پر منتظم مخمس کا نشان استعمال کرتے تھے۔
اس کے بعد علم ہندسہ کی خاصی ترقی ہوئی۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں کئی مہندس پیدا ہوئے۔ ان میں ہپوکرٹس (Hippocrates) نمایاں ہستی ہے۔ ہپوکرٹس کاکارنامہ یہ ہے کہ اس نے پہلی بار زاویوں کے راس پر حروف لکھ کر پڑھنے کا طریقہ اختیار کیا۔
افلاطون (۴۲۷ق۔ م تا ۳۴۷ق۔م) نے ایتھنز سے باہر درختوں کے جھنڈ میں علمی ادارہ قائم کیا جس کا نام ’’اکیڈمی‘‘ رکھا، اکیڈمی کے دروازے پر مرقوم تھا۔
’’ریاضی سے نابلد شخص کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ۔‘‘
افلاطون نے ہندسی اصطلاحات کی وضاحت کی۔ اس نے ہندسی اشکال، پرکار اور پیمانے سے بنانے کے اصول وضع کئے۔ اس نے ہندسی مسائل کے ثبوت کے لئے اثباتی طریقہ رائج کیا۔
حکیم افلاطون کا نامور شاگرد یوڈوکس (Eudoscus) نے متناسب اور مشابہ اشکال پر تفصیلی بحث