کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 4
جذبۂ ایمانی سے یہ جنگ جیتی تھی، وہ اسلام دشمن طاقتوں کے لئے ایک چیلنج تھا۔ اس لئے وہ پاکستان کے معرضِ وجو میں آنے کے وقت سے ہی اس جذبہ سے ہی اس جذبہ کو پست کر کے مسلمان قوم کی توجہ دوسرے مسائل کی طرف کرنے کے در پے در ہے تاکہ پاکستان اپنا وجود باقی نہ رکھ سکے۔ خصوصاً بھارت ابھی تک اسے قبول نہیں کر پایا ہے اور وہ پھر سے اکھنڈ بھارت بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔
ادھر ہمارے عوام و خواص دشمنوں کے عزائم سے بے خبر قیام پاکستان کے مقصد کو پس و پشت ڈال کر نفسانی خواہشات کی تکمیل میں سرگرداں رہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روحِ پاکستان کمزور ہو گئی اور ۲۳ سال میں ہم اس حالت کو پہنچ گئے کہ آج اس ملک کی سالمیت کا تحفظ ایک کٹھن مسئلہ بن کر سامنے آگیا ہے، حالانکہ چودہ صدیاں قبل اتنی ہی مدت میں اسلام ساری دنیا کے لئے اتفاق و اتحاد اور زندگی کی راہنما قوت بن کر اُبھرا تھا اور اسلامی ریاست تا قیامت اس کرۂ ارضی پر بسنے والوں کے لئے نمونہ بنی تھی۔
جب اسلام راہنما قوت بننے کی بجائے کھوکھلا نعرہ بن کر رہ جائے تو اس کے وہی نتائج نکل سکتے ہیں جو آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں یعنی آزادانہ سیاسی سرگرمیوں میں حریت فکر و عمل، پاکستان اور اسلام سے بغاوت کی صورت میں سامنے آئی ہے۔
ملکی سالمیت کا تحفظ اگرچہ ہر پاکستانی کا فرض ہے لیکن اس کی سب سے بڑی ذمہ داری سربراہِ مملکت پر عائد ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمارے صدر مملکت کو اس کا پورا احساس ہے اور انہوں نے پہلے لیگل فریم ورک آرڈر میں واضح طور پر ملک کی سالمیت اور نظریۂ پاکستان کی پاسداری لازمی قرار دی، پھر موقعہ بہ موقعہ اس کا اظہار کرتے ہی خصوصاً ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہونے پر ۶ مارچ ۱۹۷۱ئ کی نشری تقریر میں واشگاف الفاظ میں اس عزم کا اعلان کیا کیونکہ عظیم اکثریت سے کامیاب ہونے والے لیڈر جس طرح ملک میں دو قیادتوں کے لئے کوشاں تھے۔ جس کا نتیجہ ملک کی تباہی تھا۔[1]ا ِس کا دفاع
[1] قیادت کی تقسیم قوموں کی موت ہوتی ہے۔ جب یزیدی لشکروں نے مدینہ منورہ پر چڑھائی کی تو انصار و مہاجرین علیحدہ علیحدہ فوجوں سے ان کے مقابلے میں نکلے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر ملی تو بے ساختہ زبان سے نکلا:۔
’’امیران!!! ھلک القوم‘‘ یعنی دو امیر ہیں قوم ہلاک ہو گئی۔‘‘ نتیجہ وہی نکلا ہ قیادتوں کی تقسیم کی وجہ سے مہاجرین و انصار شکست کھا گئے۔