کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 39
اِن نظریات اور گمراہیوں کا مخالف ہے تو پر اس کو یہ نام (اشتراکیت) دینا کیا معنی رکھتا ہے اور یہ کتنا گھناؤنا جرم ہے کہ ہم اسلام پر اشتراکیت کا نام چسپاں کریں ؟ یا یہ۔۔۔۔۔
٭ کہ لوگوں کے لئے کس طرح جائز ہے کہ وہ اسلام پر سرمایہ داری کا لیبل لگائیں ؟؟
٭ (یہ بتائیے کہ) کیا اسلام آج بھی ہر (جائز و ناجائز) طریقے سے مال جمع کرنے کی اجازت دیتا ہے خواہ وہ سود اور
٭ ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ سے ہی کیوں نہ ہو؟؟
٭ کیا اب بھی اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مال کو جس طریق پر انسان چاہے خرچ کرے حتیٰ کہ وہ اسے شراب و کباب، لہو و لعب اور اس بازار کی رقص کرتی ہوئی سرخ اور روشن راتوں کی نظر کر دے؟؟
٭ بلکہ کیا اسلام ایک مرد کو عورت سے باہمی رضا مندی کی بنا پر زنا کی اجازت دیتا ہے؟؟
٭ یا کیا اسلام اس بات پر اکتفا کرتا ہے کہ اسے اس قدر تنگ اور محدود مانا جائے کہ اسلام بندے اور اس کے معبود کے درمیان صرف عبادات کے محدود ترین مفہوم کے ساتھ ایک تعلق کا نام ہے اور سالام کے احکام کو زندگی کی مشکلات کو حل کرنے، کسی چیز کو جائز قرار دینے، اسے ناجائز گرداننے اور انسانی زندگی کی حلت و حرمت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ؟؟
٭ کیا اسلام اس نظریے کی تائید کرتا ہے کہ دین الگ اور سیاست الگ ہے۔۔ اور۔۔۔ کیا اسلام میں زندگی کے مسائل اور حوادثات میں احکامِ خداوندی کو چھوڑ کر لوگوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ اپنی اصلاح و تعمیر سے متعلق جس طریق کو وہ مناسب سمجھیں اُسے اپنا لیں ؟؟
٭ یہ ہیں سرمایہ داری (یعنی مذہب آزادی) کے اہم بنیادی نکات ۔۔۔ اگر اسلام ان نکات کو بھی تسلیم کرتا ہے تو پھر ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ۔۔۔ کہ اسلام کا سرمایہ داری سے بھی کوئی ٹکراؤ اور اگر اسلام ان نکات کو تسلیم نہیں کرتا تو پھر بہتان تراشی اور افترا پردازی کے ذریعے اسلام پر سرمایہ داری کا اطلاق کس طرح جائز ہے؟؟
٭ کیا ایمانداروں کے لئے یہ لائق اور مناسب نہیں ہے کہ وہ اولاً تو اسلام کو اچھی طرح ذہن نشین کریں اور ثانیاً نئے مذاہب کی جدت طرازیوں کی ان کے اصلی ماخذوں کی روشنی میں تحقیق کریں اور پھر ان نظریات