کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 38
سُچے احکام کا حلیہ بگاڑنے میں انہیں آسانی ہوتی ہے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان سے نازل فرمایا ہے۔ اس بدترین جرم کے مرتکب لوگوں کی حسنِ نیت (اگر اس کو حسنِ نیت ماننے کی کوئی گنجائش ہو) ان کا دفاع کبھی نہیں کر سکتی اور کر بھی کیونکر سکتی ہے؟ جو اسلام کو ہر وہ لباس پہنانے میں کوئی باک محسوس ہیں کرتے جوہر زمانے کے شیاطین کے ہاتھوں تیار ہوتا آیا ہے۔ یہ مسلمہ اصول ہے کہ جو جہالت کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں ، ان کا دفاع کوئی نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کو ٹامک ٹوئیاں مارنے سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے:۔ وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَا وَ کُلُّ اُولٰئکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤٔلاً ترجمہ: جس چیز کا تجھے علم نہ ہو اس سے متعلق اٹکل پچو باتیں نہ کیا کرو، بے شک کان، آنکھیں اور دِل ان تمام چیزوں سے باز پرس ہو گی۔ ٭ ان احمقوں کو جو اسلام کو ہر جدید نام کا لباس پہنا کر خوشی محسوس کرتے ہیں یہ کس طرح لائق ہے کہ وہ اسلام پر لفظ اشتراکیت کا اطلاق کریں ؟؟ ٭ کیا اسلام جائز طریق پر حاصل کردہ فرد کی ذاتی جائیداد سے بھی اسے محروم کرتا ہے؟ ٭ کیا اسلام پاکیزہ عائلی زندگی اور ازدواج کے مقدس نظام کو ٹھکرا کر اسے زنا اور بدکاری میں تبدیل کرنے کا حکم دیتا ہے؟؟ ٭ یا کیا اسلام وجود باری تعالیٰ، یومِ آخرت اور رسولوں کی رسالت کو انکار کرتا اور اسے خرافات قرار دیتا ہے؟؟ ٭ بلکہ کیا اسلام ڈکٹیٹر شپ اور رعایا کی گردن زدنی کو حکام کی اپنی منشا کے مطابق جائز اور صیح گردانتا ہے؟؟ یہ ہیں انقلابی اشتراکیت کے اہم ترین بنیادی نکات، اگر اسلام ان نکات کو تسلیم کرتا ہے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اسلام اور اشتراکیت میں باہم کوئی تضاد نہیں (جب دونوں ایک ہیں ۔ تو) اس حال میں اشتراکیت کے لفظ کا اسلام پر اطلاق کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ، اور جب یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ اسلام