کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 36
(۱) اقتصادی نظریے: کے مطابق یہ مذہب انسان کو ذاتی ملکیت کے حق سے محروم گردانتا ہے۔ اس کا اعلان یہی ہے کہ فرد کو زمین ہو، کارخانہ ہو، یا ضروریاتِ زندگی ہی کیوں نہ ہوں ، ان میں ذاتی ملکیت کا حق حاصل نہیں ہے، ملکیت کا حق اگر کسی کو حاصل ہے تو ان کے نزدیک صرف وہ جماعت ہے جو حکومت کرتی ہے، اور رعایا حکومت کی غلام متصور ہوتی ہے، جس پر ریاست کے تمام احکام کو بجا لانا فرض ہوتا ہے۔ فرد کو خوا کسی جگہ پر بھی متعین کر دیا جائے، اس کو حکومت کے اس فیصلے پر کسی اعتراض کا حق نہیں ہوتا، اس خدمت کے معاوضے کے طور پر حکومت ان کے طعام، قیام اور لباس مہیا کرنے پر اکتفائ کرتی ہے، اور قیام و طعام کا معیار ریاست کی اپنی منشائ کے مطابق ہوتا ہے۔ (۲) سماجی حالت: کمیونزم میں خاندانی زندگی اور شادی کو فرد کی ترقی اور مساوات میں ایک رکاوٹ تصور کیا گیا ہے۔ پس اس لحاظ سے یہ مذہب عائلی زندگی اور نکاح جیسی پابندیوں کی یکسر نفی کرتا ہے اور اس بات کو باعثِ فضیلت تسلیم کرتا ہے کہ جو مرد جس عورت سے چاہے میل ملاپ رکھ سکتا ہے۔ میل ملاپ کے بعد اولاد کی پرورش کی ذمہ دار حکومت ہوتی ہے۔ یہ نظریہ لینن کے زمانہ ۱۷۱۷؁ میں کمیونزم کی پہلی انقلابی تحریک میں ہی نافذ العمل ہو گیا تھا، لیکن جس طرح اقتصادی نظام میں قلت پیداوار کی بدولت اپنے ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی پسماندگی کو دیکھ کر اشتراکیوں نے اب زرعی زمین کی ملکیت کو ’’اگرچہ محدود پیمانے پر ہی‘‘ جائز تسلیم کر لیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے حسب و نسب اور نسل کے خاتمہ کے خوف سے مرد اور عورت کے عام میل ملاپ کے خود ساختہ اصولوں سے بھی اب تھوڑا تھوڑا پیچھے ہٹنا شروع کر دیا ہے۔ (۳) دینی حالت: دین سے متعلق کمیونزم کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا وجود، رسولوں کا آنا اور یومِ آخرت کا تسلیم کرنا محض خرافات اور گمراہی کی باتیں ہیں ، جنہیں قرونِ وسطیٰ میں دین کے نام نہاد پیشواؤں نے اپنے ذہنوں سے گھڑ لیا تھا تاکہ وہ لوگوں کو غلام بنائے رکھیں اور عوام ان سے اس قدر خوف کھائیں کہ زندگی کی دوسری ضروریات کا مطالبہ نہ کریں ۔ پس اس خاص مقصد کی خاطر انہوں نے عوام کے لئے خدا، یومِ آخرت، جنت، دوزخ اور اس قسم کے تصورات کو گھڑ لیا ہے۔ اسی خاص نقطہ نظر کے پیش نظر وہ دین و امان کی ہر قسم کے خلاف نبرد آزما رہتے ہیں ۔۔۔۔۔ اگرچہ اپنے سیاسی اجتماعات میں وہ اس دین دشمنی کو چھپاتے اور منافقت کا ثبوت دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا یہ قول زبانِ زد خاص و عام ہے۔‘‘ مذہب عوام کے لئے افہیم ہے‘‘ الدین افیون الشعوب