کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 35
(۳) سرمایہ داری میں دینی زندگی: میں بھی فرد کو ہر قسم کی آزادی ہے، وہ اچھے یا برے جس قسم کے عقائد و اعمال اپنانا چاہے اپنا سکتا ہے اور معاشرے میں ایک فرد کو دوسرے فرد کے دینی خیالات یا عقائد میں دخل اندازی اور دینی نظریات کی تحقیر کی اجازت نہیں ہوتی، ان کے ہاں دین صرف قدم اور محدود پیرائے میں انسان اور اس کے معبود میں عبادت کے اظہار کا ایک وسیلہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں دین رہبانیت کا دوسرا نام ہے، جس کا زندگی کے ہنگاموں سے کوئی سروکار نہیں اور حلت و حرمت کے پیمانوں کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ۔ پس سرمایہ دار، مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے الگ تھلگ تسلیم کرتے ہیں ۔ (۴) جہاں تک سرمایہ داری میں طرزِ حکومت: کا تعلق ہے یہ جمہوریت کے طریق کو تسلیم کرتے ہیں اور جمہوریت کی تعریف، جیسا کہ جمہوریت کے کار پروازوں نے اسے بیان کیا ہے۔ یہ ہے ’’عوام کی حکومت‘‘ عوام کے ذریعے سے اور عوام کی خاطر۔‘‘[1] اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو جمہوریت کی حکومت بنانے کا کلی اختیار ہے۔ وہ اپنے اوپر حکومت کے لئے جس کو چاہیں منتخب کر سکتے ہیں اور ان عوامی نمائندوں کو ہی ریاست اور افراد سے متعلق قوانین بنانے اور نظم و نسق کے قواعد و ضوابط تیار کرتے پڑتے ہیں ۔ دوم: مار کسی اشتراکیت یا کمیونزم: عرف عام میں ایک خاص جماعت کے فکر و نظر کو اس مذہب کی اساس مانا گیا ہے اور اس مذہب میں فرد کو کسی بھی چیز میں جو وہ چاہتا ہو آزادیٔ اختیار حاصل نہیں بلکہ وہ تو فرد کو (مشین کے پہیے میں فٹ) ایک پرزے سے تشبیہ دیتے ہیں جو جماعت کے گرد اس طرح گردش کرتا ہے، جس طرح مشین کے ایک جزو کی حیثیت سے پہیہ حرکت کرتا ہے اور اس لحاظ سے فرد کو (جماعتی نظام پر) کسی قسم کے اعتراض یا نکتہ چینی کا حق حاصل نہیں ہے۔
[1] "Democracy is a government by the people, of the people, for the people."