کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 28
نیز فرمایا: فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِطٰتٌ لِّلْغَیْبِ [1] جامع البیان میں ہے: مطیعات لازواجہن تَحْفَظُ فی غیبتہ نفسَہا ومالَہ۔ یعنی نیک عورتیں وہ ہیں جو خاوندوں کی تابعدار اور ان کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور ان کے مال کی حفاظت کرتی ہیں ۔ حدیث میں ہے: والمرأۃ راعیۃ علی بیت زوجہا وولدہ وی مسؤلۃ عنھم [2] یعنی عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد پر نگران ہے اور وہ ان سے پوچھی جائے گی۔ اس آیت و حدیث اور دیگر آیات و احادیث سے ثابت ہے کہ عورت اپنے نفس اور خاوند کے گھر بار، مال و اولاد کی مالک نہیں صرف نگران ہے۔ اسی واسطے وہ اپنے اور اپنی اولاد کے نان و نفقہ وغیرہ کی ذمہ دار نہیں بلکہ اس کا ذمہ دار مرد ہے جیسا کہ ارشاد ہے:۔ وَعَلَی الْمَوْلُوْدِلَہ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالقمَعْرُوْفِ [3] یعنی ان کا رزق اور لباس دستور کے مطابق باپ پر ہے۔ پس مذکورہ بالا سطور سے واضح ہو گیا کہ عورت کی غرضِ پیدائش گھر کی نگرانی، بچوں کی تربیت، خاوند کا آرام و راحت اور خدمت ہے۔ فقط اس سے زیادہ اس کو اختیار دینا خلاف منشا الٰہی ہے لہٰذا وہ ولی نکاح میں نہیں ہو سکتی نہ اپنا نکا خود کرا سکتی ہے۔ بایں ہمہ عورت عقل و دین میں ناقص بھی ہے۔ قرآن مجید میں ہے: اَوَ مَنْ یُّنَشَّؤُ فِی الْحِلْیَۃِ وَھُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ [4] حاصل معنی یہ ہے کہ ورت ناقص عقل ہے۔ اسی واسطے وہ ادنیٰ چیزوں زیور وغیرہ کی دلدادہ ہے اور
[1] النسا: ۳۴ [2] بخاری و مسلم [3] البقرہ: ۲۳۳ [4] زخرف: ۱۸