کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 27
حاصل یہ ہے کہ دنیا اور آخرت کے کل امور میں سردار، مختار، ذمہ دار اور جواب وہ مرد ہی ہے اور طلاق و نکاح کرنے کرانے کا اختیار بھی مرد کو ہی ہے۔ عورت کا میں ولی نہیں ہو سکتی اور نہ اپنا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر کرا سکتی ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔ یہاں تک مختصر طور پر مرد کی غرضِ پیدائش اور اس کا مقام بیان کیا گیا۔ آگے عورت کی حیثیت ملاحظہ فرمائیے۔
حضرت حوا علیہا السلام کی غرضِ پیدائش کے متعلق ارشاد ہے:
ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا [1]
یعنی اللہ ایسا قادر و منعم ہے جس نے تم کو ایک تن واحد (آدم علیہ السلام ) سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا (حوا علیہا السلام ) بنایا تاکہ وہ اس جوڑے سے انس حاصل کرے۔
دیگر عورتوں کی غرضِ پیدائش کے متعلق یوں ارشاد ہے:
وَمِنْ اٰیٰتہٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً [2]
یعنی اللہ کی قدرت کی نشانیوں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ ان سے اُنس و آرام حاصل کرو اور تمہارے اور تمہاری بیویوں کے درمیان محبت اور رحمدلی پیدا کی۔
دوسری غرض عورت کی پیدائش سے اولاد ہے۔ ارشاد ہے۔
نسائکم حرث لکم[3] تمہاری بیویاں تمہارے لئے بمنزلہ کھیت کے ہیں کہ ان سے اولاد پیدا ہوتی ہے۔
تیسری غرض عورت سے اولاد کی تربیت اور گھر بار کی حفاظت و نگرانی ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ [4]
یعنی مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں ۔
[1] الاعراف: ۱۸۹
[2] الروم: ۲۱
[3] البقرہ: ۲۲۳
[4] البقرہ: ۲۳۳