کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 25
قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم وعرضہا اللّٰه علی اٰدم فقال بین اذنی وعاتقی
یعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے امانت آدم علیہ السلام پر پیش کی تو اس نے کہا میں نے یہ امانت اپنے کندھے پر اُٹھالی۔
نیز ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہے:
الامانۃ الفرائض التی افترضہا اللّٰه علی العباد
یعنی امانت سے مراد فرائض ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بندوں پر فرض کئے ہیں ۔
قتاوہ رحمہ اللہ نے کہا:۔ یعنی بہ الدین والفرائض والحدود
یعنی امانت سے مراد دین کے فرائض اور حدود ہیں ۔ ان اقوام اور ان جیسے دیگر اقوال سے جو ابن جریر نے باسند روایت کیے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ امانت اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام پر پیش کی تھی جو اس کی اہلیت اور استطاعت رکھتے تھے۔ حوا پر پیش نہیں کی کیونکہ وہ اس کی متحمل نہیں ہو سکتی تھیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسی کٹھن ذمہ داری جس کو سخت سے سخت تر مخلوق آسمان زمین پہاڑ نہ اُٹھا سکے آدم علیہ السلام نے اُٹھا لی تو اصل حامل شریعت مرد ہی ہوا، بالتبع عورت بھی ہوئی مگر تعبدی احکام نماز، وغیرہ میں ،[1] سیاسی امور جنگ جہاد اور حکومت وغیرہ مرد کا ہی حصہ رہا۔ لہٰذا نکاح طلاق وغیرہ جو سیاست (انتظام) سے تعلق رکھتے ہیں مرد کے اختیار میں رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے جس طرح مرد کو تمام کائنات پر حکومت بخشی ہے اسی طرح اپنی ہم جنس عورت پر بھی حاکم بنایا ہے۔ ارشاد ہے:۔
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ [2]
یعنی مرد عورتوں پر حاکم ہیں ۔ اس سبب سے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں ۔
[1] کتب القتل والقتال علینا، وعلی النسائ جر الذیول ترجمہ: ہم پر نگ اور قتل و غارت فر کی گئی لیکن عورتوں پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے دامن کھینچتی پھریں۔
[2] النسا: ۳۴