کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 24
یعنی وہ قوم ہرگز کامیاب نہ ہو گی جس نے عورت کو اپنا حاکم بنایا۔
جب نائبِ خدا اور شاہِ ارض مرد ہے اور کل کائنات پر احکام جاری کرنے کا وہی حقدار ہے تو عورت پر بھی احکامِ نکاح طلاق وغیرہ جاری کرنے کا وہی حقدار ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کی امانت (احکامِ شریعت) کا بار بھی مرد (آدم علیہ السلام ) نے ہی اُٹھایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ َلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ [1]
یعنی ہم نے اپنی امانت آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کی انہوں نے اُٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور آدم علیہ السلام نے اس کو اُٹھا لیا۔
ابن جریر میں ہے:
عن ابن عباس قولہ انا عرضنا الامانۃ الطاعۃ عرضنا علیہا قبل ان یعرضہا علی اٰدمفلم تطقہا فقال لاٰدم انی قد عرضت الامانۃ علٰی السمٰوٰت والارض والجبال فلم تطقہا فھل انت اخذھا فقال یارب وما فیھا قال ان احسنت جزیت وان اسأت عوقبت فاخذھا اٰدم فتحملھا فذلک قولہ وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ اِنَّہ کَانَ ظَلُوْماً جَھُوْلاً
یعنی ابن عباس سے مروی ہے کہ امانت سے مراد طاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا۔ وہ اُٹھا نہ سکے پھر آدم علیہ السلام سے فرمایا اے آدم علیہ السلام میں نے امانت آسمان زمین پہاڑوں پر پیش کی۔ وہ اُٹھا نہیں سکے کیا تو اس کو اٹھائے گا۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا اس میں کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر تو نیکی کرے گا جزا دیا جائے گا اور برائی کرے گا تو سزا پائے گا۔
آدم علیہ السلام نے اس کو اُٹھا لیا۔ پس اللہ تعالیٰ کے قول و حملہا الانسان سے بھی یہی مراد ہے۔
اور ابن زید کے قول میں ہے:۔
[1] الاحزاب: ۷۲