کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 18
وفی روایۃ لا تقرؤا بشیٔ اذا جھرت الا بام القراٰن وقال عطائ کانوا یرون علی الماموم القرأۃ فیما یجھر فیہ الامام وفیما یسر فرجعا من قولھما الاول الی الثانی احتیاطا اٰہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ و محمد رحمہ اللہ کے دو قول ہیں پہلاؔ نہ واجب ہونا قرأۃ فاتحہ کا اوپر مقتدی کے اور نہ مسنون ہونا واسطے اس کے اور یہ قولِ قدیم ہے ان دونوں کا اور داخل کیا اس کو محمد رحمہ اللہ نے اپنی تصانیفِ قدیمہ میں اور مشتہر ہوئے نسخے اطراف میں ۔ دوسراؔ مستحسن ہونا قرأۃِ فاتحہ کا ازراہِ احتیاط کے اور نہ مکروہ ہونا وقت آہستہ پڑھنے کے بسبب حدیث مرفوع کے کہ نہ کرو قرأۃ مگر ساتھ سورۂ فاتحہ کے اور ایک روایت میں ہے نہ پڑھو کچھ جس وقت بآواز بلند پڑھوں میں قرأت مگر سورۂ فاتحہ اور کہا عطائ نے تھے یعنی صحابہ قائل اس بات کے کہ مقتدی قرأۃ کرے اس نماز میں کہ بآوازِ بلند پڑھتا ہے امام اور اس میں کہ آہستہ پڑھتا ہے۔ پس رجوع کیا دونوں نے یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور محم رحمہ اللہ د نے اپنے قول اول سے طرف قول ثانی کے احتیاطاً الخ اور ملا جیون رحمہ اللہ نے تفسیر احمدی میں تحریر کیا ہے:۔ فان رایت الطائفۃ الصوفیۃ والمشائخین الحنفیۃ تراھم یستحسنون قرأۃ الفاتحۃ للمؤتم کما استحسنہ محمد ایضاً احتیاطا پس اگر دیکھے تو گروہِ صوفیہ اور مشائخینِ حنفیہ کو دیکھے گا تو ان کو کہ اچھا جانتے ہیں پڑھنا سورۂ فاتحہ کا واسطے مقتدی کے جیسا کہ مستحسن جانا سورۂ فاتحہ پڑھنے کو امام محمد رحمہ اللہ نے بھی ازروئے احتیاط کے اور حضرت شاہ شیخ رف الدین بہاری قدس سرہٗ کے ملفوظات مسمیٰ بخوان پر نعمت میں ہے:۔ ’’ازیں جاباز بیچارہ عرض داشت کہ قرأتِ فاتحہ خلف الامام مقتدی را وعید است آنجاچہ کند فرمود قرأت فاتحہ بکند و مشائخ ہم مے خوانند الخ ابجد العلوم میں تحت ترجمہ حضرت میرزا جانجاناں رحمہ اللہ تعالیٰ کے لکھا ہے:۔