کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 17
کیا مصنف نے کلام کو ان کے اور مراد ان کی حالت قرأت سری میں ہے نہ جہری میں اور امام رکن الدین علی سغدی کی شرح جامع میں ہے کہ ہمارے بعض مشائخ سے مروی ہے کہ نماز سری میں امام مقتدی کی قرأت کو اس کی طرف سے ادا نہیں کر سکتا۔ ۱۲ اور ہدایہ میں ہے:۔ ویستحسن علی سبیل الاحتیاط فیما یروی عن محمد رحمہ اللّٰه اٰہ اور احتیاط کی نظر سے پڑھنا مستحسن ہے بموجب اس قول کے جو امام محمد رحمہ اللہ سے مروی ہے۔ ۱۲ اور علینی نے شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے:۔ وبعض مشائخنا یستحسنون ذلک علی سبیل الاحتیاط فی جمیع الصلوٰۃ وبعضھم فی السریۃ فقط وعلیہ فقھائ الحجاز والشام اٰہ یعنی بعض مشائخ ہمارے مستحسن سمجھتے ہیں پیچھے امام کے سورہ فاتحہ پڑھنے کو ازراہِ احتیاط کے سب نمازوں میں اور بعض مشائخ نماز آہستہ والی میں اور اسی پر ہیں فقہا حجاز اور شام کے الخ اور ملا علی قاری نے شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے:۔ الامام محمد من ائمتنا یوافق فی القرأۃ خلف الامام فی السریۃ اٰہ امام محمد رحمہ اللہ ہمارے اماموں میں سے موافقت کرتے ہیں امام شافعی رحمہ اللہ کی بیچ پڑھنے سورۂ فاتحہ کے پیچھے امام کے نماز سریہ میں ۱۲ اور عبد الوہاب شعرانی نے میزان کبریٰ میں لکھا ہے:۔ لابی حنیفۃ و محمد قولان: ۔۔۔۔ احدھما عدم وجوبھا علی الماموم ولا یسن لہ وھذا قولھما القدیم وادخلہ محمد فی تصانیفہ القدیمۃ واشتھرت النسخ الی الاطراف وثانیہما استحسانھا علی سبیل الاھتیاط وعدم کراھتھا عند المخافتۃ للحدیث المرفوع لا تفعلوا الا بام القراٰن