کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 16
سوال: سورۂ فاتحہ کا امام کے پیچھے پڑھنا کیسا ہے؟ جواب: قرأۃ فاتحہ خلف الامام کو کتب فقہیہ میں احتیاطاً مستحسن لکھا ہے۔ چنانچہ مجتبیٰ شرح قدوری میں ہے:۔ فی شرح الکافی للبزدوی ان القرأۃ خلف الامام علی سبیل الاحتیاط حسن عند محمد و مکروہ عندھما وعن ابی حنیفۃ رحمہ اللّٰه انہ لا باس بان یقرئ الفاتحۃ فی الظھر والعصر وبما شائ من القران اٰہ یعنی بزدوی کی شرح کافی میں یہ ہے کہ پڑھنا پیچھے امام کے احتیاطاً حسن ہے نزدیک امام محمد رحمہ اللہ کے اور مکروہ ہے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ و ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک اور روایت ہے ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے یہ کہ نہیں مضایقہ ہے اس میں کہ پڑھے سورۂ فاتحہ ظہر اور عصر میں اور جو کچھ چاہے قرآن سے، و ربنا یہ شرح ہدایہ میں ہے:۔ ویستحسن ای قرأۃ المقتدی الفاتحۃ احتیاطا ورفعا للخلاف فیما روی بعض المشائخ عن محمد رحمہ اللّٰه وفی الذخیرۃ لو قرئ المقتدی خلف الامام فی صلوٰۃ لا یجھر فیھا اختلف المشائخ فیہ فقال ابو حفص وبعض مشائخنا لا یکرہ فی قول محمد واطلق المصنف کلامہ ومرادہ فی حالۃ المخافتۃ ون الجھر وفی شرح الجامع للامام رکن الدین علی السغدی عن بعض مشائخنا ان الامام لا یتحمل القرأۃ عن المقتدی فی صلوٰۃ المخانتۃ اور مستحسن ہے یعنی پڑھنا مقتدی کو سورۂ فاتحہ احتیاطاً اور واسطے دور کرنے خلاف کے اس میں کہ روایت کیا ہے بعض مشائخ نے محمد رحمہ اللہ سے اور ذخیرہ میں ہے کہ اگر پڑھے مقتدی پیچھے امام کے اس نماز میں جس میں جہر نہیں کیا جاتا ہے اختلاف کیا مشائخ نے بیچ اس کے پس کہا ابو حفص اور بعض مشائخ نے ہمارے نہیں مکروہ ہے بیچ قول محمد رحمہ اللہ کے اور مطلق ذکر