کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 15
اور مصباح الہدایہ ترجمۂ عوارف میں ہے:۔
’’ومیانِ سینہ و ناف دستِ راست برچپ نہد آہ‘‘
سوال:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا جس طرح قل سورۂ فاتحہ کے نماز میں پڑھنا سنت ہے۔ اسی طرح نماز میں اس کا درمیان فاتحہ و سورۃ کے پڑھنا حسن ہے یا نہیں ۔
جواب:
حسن ہے۔ رد المحتار کے صفحہ ۵۱۱ میں ہے:۔
صرح فی الذخیرۃ والمجتبی بانہ ان سمی بین الفاتحۃ والسورۃ المقرؤۃ سرا او جھرا کان حسنا عند ای حنیفۃ رحمہ اللّٰه ورجحہ المحقق ابن ھمام وتلمیذہ الحلبی لشبھۃ الاختلاف فی کونھا ایۃ من کل سورۃ بحراہ
یعنی تصریح کی ہے ذخیرہ اور مجتبےٰ میں اس بات کی کہ اگر بسم اللہ پڑھے درمیان سورہ فاتحہ اور سورت کے جو پڑھی گئی آہستہ یا جہر سے ہو گا بہتر نزدیک امام اعظم رحمہ اللہ کے اور ترجیح دیا ہے، اس کو محقق ابن ہمام اور شاگرد ان کے حلبی نے واسطے شبہہ اختلاف کے بیچ ہونے بسم اللہ کے آیت ہر سورت سے نقل کیا ہے اس کو بحر الدقائق سے
اور عمدۃ الرعایۃ میں ہے:۔
اما عدم الکراھۃ فمتفق علیہ ولھذا صرح فی الذخیرۃ والمجتبٰی بانہ لو سمٰی بین الفاتحۃ والسورۃ کان حسنا عند ابی حنیفۃ رحمہ اللّٰه سوا کانت السورۃ مقروۃٔ جھرا او سرا الخ
لیکن نہ مکروہ ہونا بسم اللہ کے پڑھنے کا، پس اتفاق کیا گیا ہے اس پر، اور اسی لئے ذخیرہ اور مجتبےٰ میں تصریح کی ہے بایں طور کہ اگر بسم اللہ پڑھے درمیان سورۂ فاتحہ اور سورۃ کے ہوگا بہتر نزدیک ابو حنیفہ رحمہ اللہ ک خواہ وہ سورت پڑھی گئی ہو بآواز یا آہستہ الخ۔