کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 13
احد من اصحابہ وما استحبہ احد من التابعین ولا الأمۃ الاربعۃ الخ وفی فتح القدیر قال بعض الحفاظ لم یثبت عن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم بطریق صحیح ولا ضعیف انہ کان یقول عند الافتتاح اصلی کذا ولا عن احد من التابعین بل المنقول انہ اذا قام الی الصلوٰۃ کبر فھذہ بدعۃ یعنی مرقاۃ میں ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب ’’زاد المعاد فی ہدی خیر العباد‘‘ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر فرماتے اور اس سے پہلے کچھ نہ فرماتے اور نہ زبانی نیت کرتے اور نہ یوں کہتے کہ میں فلاں نماز کی چار رکعت کعبہ کی طرف منہ کر کے امام یا مقتدی ہو کر پڑھتا ہوں اور ہ ادا یا قضا یا فرض کا نام لیتے اور یہ سب بدعات ہیں کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی نقل نہیں کیا۔ نہ سند صحیح سے اور نہ سندِ ضعیف سے اور نہ مسند سے اور نہ مرسل سے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بھی کسی سے منقول نہیں ہوا اور تابعین میں سے بھی کسی نے اس کو مستحب نہیں کہا اور نہ چاروں اماموں نے الخ۔ اور فتح القدیر میں ہے کہ بعض حفاظِ حدیث نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ تو صحیح طریق سے ثابت ہوا ہے اور نہ ضعیف سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز کے وقت کہتے ہوں کہ میں فلاں نماز پڑھتا ہوں اور نہ تابعین میں سے کسی سے ثابت ہوا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو یہی منقول ہوا ہے کہ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر فرماتے۔ لہٰذا یہ بدعت ہے۔ سوال: نماز میں دونوں ہاتھ سینہ پر باندھنا کسی معتمد صوفی حنفی کا فعل ہے یا نہیں ؟ جواب: ہے۔ مولوی شاہ نعیم اللہ بھڑائچی در معمولات کہ در احوال شیخ میر زا مظہر جان جاناں علیہ الرحمۃ تالیف کردہ مے نویسند:۔ ’’معمول چنیں بود کہ صلوٰت خمسہ راور اوقاتِ مخصوصہ و مستحبہ ادامے نمود ند درغایت