کتاب: محدث شمارہ 4 - صفحہ 12
منھم التکلم بنویت او انوی صلٰوۃ کذا فی وقت کذا ونحو ذٰلک کما حققہ ابن الھمام فی فتح القدیر وابن القیم فی زاد المعاد
کہ پہلا اس کا اکتفا کرنا ہے ساتھ نیت ِدل کے اور دل کی نیت کافی ہے بالاتفاق اور یہی طریقہ مشروع اور منقول ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب سے اور ان میں سے کسی ایک سے بھی منقول نہیں ہوا کہ انہوں نے زبان سے یوں کہا ہو کہ نیت کی میں نے یا نیت کرتا ہوں میں فلاں نماز کی فلاں وقت میں اور نہ مثل ان الفاظ کے کوئی اور لفظ کہتے۔ ابن ہمام رحمہ اللہ نے فت القدیر میں اور ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں ایسا ہی تحقیق کیا ہے۔ اور مولانا محمد عبد الحی رحمہ اللہ نے ’’آکام النفائس‘‘ میں ارقام فرمایا ہے:۔
(تنبیہ) کثیرا ما سئلت عن التلفظ بالنیۃ ھل ثبت ذلک من فعل رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم واصحابہ وھل لہ اصل فی الشرع فاجبت بانہ لم یثبت ذٰلک من صاحب الشرع ولا من احد من اصحابہ الخ
کہ زبانی نیت کرنے کا مسئلہ مجھ سے بہت دفعہ پوچھا گیا کہ آیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب سے ثابت ہے یا نہیں اور آیا شرع میں اس کی کوئی اصل بھی ہے؟ تو میں نے یہی جواب دیا کہ نہ تو شارع علیہ السلام ہی سے یہ ثابت ہوا اور نہ ان کے صحابیوں میں سے کسی ایک سے ثابت ہوا۔
اور مولانا محمد عبد الحی مغفور نے سعایہ میں تحریر فرمایا ہے:
نقل فی المرقاۃ عن زاد المعاد فی ھدی خیر العباد لابن القیم کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم اذا قام الی الصلٰوۃ قال اللّٰه اکبر ولم یقل شیئا قبلہا ولا تلفظ بالنیۃ ولا قال اصلی کذا مستقبلا للقبلۃ اربع رکعات اماما او ماموما ولا قال ادائً ولا قضا ولا فرض الوقت وھذہ بدع لم ینقل عنہ احد قط لا بسند صحیح ولا بسند ضعیف ولا مسند ولا مرسل بل ولا عن