کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 8
بالتفسیر والتعبیر مولانا عزیز زبیدی واربرٹن التفسیر والتعبیر (قسط ۱۰) كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا۱؎ فَاَحْيَاكُمْ۲؎ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ۳؎ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ۴؎ تُرْجَعُوْنَ٭ ھُوَ الَّذِيْ خَلَقَ لَكُمْ۵؎ مَّا (لوگو!) تم خدا کا کیونکر انکار کر سکتے ہو اور (تمہارا حال یہ ہے کہ) تم بے جان تھے اور اسی نے تم میں جان ڈالی۔ پھر (وہی) تم کو مارتا ہے پھر (وہی) تم کو (قیامت میں دوبارہ) جلائے گا (بھی) پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ وہی (قادر مطلق) _____________________________________ ۱؎ اَمْوَاتًا (بے جان، عدم محض) یہاں پر بندوں کے غیر معمولی احتیاج اور خدا کے حدود فراموش انسانوں کا ذِکر کیا جارہا ہے۔ اَمْوَاتًا کے معنی دو ہیں، ایک یہ کہ تم عدم محض تھے اور تمہارا مذکور تک نہ تھا (لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا) کہ خدا کے سوا کسی کے وہم و گمان میں بھی تمہارا کوئی تصور نہ تھا، دوسرا یہ کہ، دنیا میں ظہور اور پیدائش سے پہلے کے سینکڑوں مختلف مراحل ایسے تھے کہ تمہارا تصور ہی تصور تھا، جان نہیں تھی۔ ۲؎ فَاَحْیَاکُمْ (پر اس نے تم میں جان ڈالی) پھر آپ کو دنیائے بے نام و نشان، سے دنیائے ہست میں لایا، اور جان ڈال کر خلعتِ وجود سے سرفراز فرمایا۔ ۳؎ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ (پھر (وہی) تم کو مارتا ہے) دنیا دار العمل ہے، سستانے اور دم لینے کو بھی کچھ وقفہ چاہئے۔ اس کے لئے دو مرحلے تجویز فرمائے، ایک ’وقفہ نیند‘ کہ انسان محدود سلسلۂ کار کے دوران، مختصر سا دم لے لیتا ہے، دوسرا وقفہ ’وقفہ موت‘ ہے، جو پورے کارِ حیات کے لئے تجویز کیا گیا ہے تاکہ اسے جدوجہد اور جھنجھٹ سے چھٹی دے کر اس کو پوری کمائی دے دی جائے۔ اس لئے بعد میں فرمایا: ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ احیاء کا یہ