کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 7
حکم ہوا یہاں سے دور، اور کہیں جا کر خانۂ خدا تعمیر فرمائیں: باپ بیٹا تعمیر کعبہ میں مصروف ہو گئے۔ بناتے جاتے تھے اور دعائیں کرتے جاتے تھے! الٰہی! قبول کیجیے
﴿وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاھِيْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَاِسْمٰعِيْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ﴾ (پ۱۰۔ بقره ع۱۵)
اس کے بعد رب سے درخواست کی کہ:
الٰہی ہمیں مسلمان رکھیو! اور نسل سے بھی ایک ’امت مسلمہ‘ قائم کیجیو! اور اظہارِ عبودیت کے انداز اور طور خود سکھائیو۔
﴿رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمِیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَارِنَا مَنَاسِكَنَا ﴾(پ۱۔ بقره۔ ع ۱۵)
فکر تھی کہ آنے والی ذریت کو بھی کوئی حنیف رہنما ہی دستیاب ہو، اس لئے خدا سے دعا کی! الٰہی! انہی میں سے ایک رسول بھیجیو جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے، کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔
﴿رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْھِمْ﴾ (پ۱۔ بقره۔ ع۱۵)
غور فرمائیے! خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حنیفیت اور مبارک زندگی کے یہ خط و خال کس قدر محیر العقول ہیں:
رب کے لئے یکسو تھے، جس کی کیفیت بالکل یوں تھی ؎
نہ غرض کسی سے نہ واسطہ، مجھے کام اپنے کام سے تیرے ذکر سے، تیری فکر سے، تیری یاد سے تیرے نام سے
اس لئے:
الف۔ خاندان، خاندانی ریاست و جاہ و حشمت چھوڑی۔
ب۔ آگ کے سمندر سے گزرے۔ ج۔ وطن چھوڑا۔
د۔ جبابرہ کے غضبناک تیوروں کا مقابلہ کیا۔
ق۔ قوم کے سب و شتم اور بے پناہ غیظ و غضب کا سامنا کیا۔ پر ’تعلق باللہ‘ پر آنچ نہ آنے دی۔ خدا تک پہنچنے کے لئے اکلوتے جگر گوشے کی قربانی دینا پڑی تو دے ڈالی، دے کر یوں مسرور ہوئے کہ بس ’عید‘ ہو گئی۔
کیا آپ کی عید بھی ایسی ہی عید ہے، کہ اس کی راہ میں ’تن، من اور دھن‘ کی بازی لگا کر بھی آپ چین پاتے ہیں، اور خدا سے قبول کرنے کی درخواست کرتے ہیں اور صرف اپنی ذات کی نہیں، سارے سنسار کی بھی آپ فکر کرتے ہیں کہ وہ شرک سے بچ جائے اور ’بندۂ حنیف‘ بن جائے؟ تو پھر آپ کو عید مبارک ہو۔ دعا ہے یہ عید آپ کے لئے ’پیامِ حنیفیت‘ بن کر آئے اور اپنے رنگ میں رنگ کر آپ کو ’مسلم حنیف‘ بنا دے۔ آمین!