کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 5
تو بخدا، جہاں ’صف ماتم‘ بچھ جاتی ہے وہاں ان کی عید ہو گئی۔ یہ ہے وہ ’عید الاضحیٰ‘ جو آپ منانے لگے ہیں۔ غور فرمائیے! کہ آپ کی عید کو اس سے کوئی نسبت ہے؟ راہِ خدا میں گھر بار، مال و منال اور جانیں لٹ گئیں تو ان کی عید ہو گئی، آپ پر یہ گھڑی آتی نہیں۔ اگر آجائے تو صف ماتم بچھ جائے۔ قرآن حکیم نے حضرت خلیل اللہ کی ’خلّت اور حنیفیت‘ کے جو نقوش ہمارے سامنے رکھے ہیں، ان سب کا استیعاب تو مشکل ہے ہاں چند ایک یہ ہیں: آپ نے اعلان کیا: ﴿اِنِّیْ وَجَّحْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا ﴾(پ۷۔ الانعام۔ ع۹) میں نے تو ہر طرف سے منہ موڑ کر اپنا رُخ صرف اِسی ذات کی طرف کر لیا جس نے آسمان و زمین بنائے۔ یہ آپ کا وہ اعلان تھا جس کے گرد آپ کی زندگی کی ساری قدریں گھومتی رہیں، دوستی بھی اور دشمنی بھی۔ دلچسپی بھی اور نفرت بھی۔ اس راہ میں جو لٹانا پڑا، لٹا ڈالا خواہ وہ اپنی جان تھی یا عزیز از جان، جانِ پدر اور جو شے حائل ہوئی اسے راستے سے ہٹانا پڑا تو ہٹا ڈالا۔ وہ خاندانی ریاست تھی یا وطن۔ غرض ہر رنگ میں کامیاب رہے اور کامیاب نکلے۔ صلی اللّٰہ عليه وعلي نبينا وبارك وسلم ﴿وَاِذِ ابْتَلٰي اِبْرَاھِيْمَ رَبُّه بِكَلِمَاتٍ فَاَتَمَّھُنَّ ﴾(پ۱۔ بقره۔ ع۱۵) اور وہ وقت یاد کرو جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے چند باتوں میں آزمایا، تو انہوں نے ان کو پورا کر دکھایا (یعنی پاس ہو گئے) آس پاس مورتیاں دیکھیں کہ دنیا ان کے لئے اعتکاف بیٹھتی ہے، اور آزر اس ادارہ کے چیئرمین ہیں۔ اپنے باپ بلکہ پوری قوم سے کہا۔ ﴿مَا ھٰذِہِ التَّمَاثِيْلُ الَّتِيْ اَنْتُمْ لَھَا عٰكِفُوْنَ﴾ (پ۱۷۔ الانبياء۔ ع۵) یہ کیا مورتیاں ہیں جن پر تم لگے بیٹھے ہو؟ جواب ملا: ﴿یَاِبْرَاھِیْمُ لَئِنْ لَّمْ تَنْتِهِ لَاَرْجُمَنَّكَ وَاھْجُرْنِيْ مَلِيًّا ﴾(پ۱۶۔ مريم۔ ع۲) اے ابراہیم! اگر (ان باتوں سے) باز نہ آئے تو تجھے سنگسار کر ڈالوں گا اور ہمیشہ کے لئے میری آنکھوں سے دُور ہو جا۔ لیجئے! ہم چلے: ﴿وَاعْتَزِلُکُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ﴾(ایضًا)