کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 4
الغرض: ہر شخص نے ’عید قربان‘ کے نام کا استحصال کیا اور اپنے مفاد اور حقوق کے حصول کے لئے دوسرے سے قربانی دینے کو کہا اور جو حقوق ان کے ذمے نکلتے تھے، ان کو بھی بھول جانے کے لئے قربانی دینے کی باتیں کیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان ظالموں نے قربانی کا مفہوم ہی نہیں سمجھا، اگر سمجھا ہے تو عمداً اِس کی غلط تعبیریں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس عظیم دن کے ذریعے وہ اپنا الّو ہی سیدھا کر سکیں۔
ہمارے نزدیک ’عید الاضحیٰ‘ کی یہ توہین ہے، اس کا استحال ہے۔ اپنے اغراض سیئہ کے لئے اس کا غلط استعمال ہے۔ حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عظیم مقاصد اور ’روحِ حنیفیت‘ کے ضیاع کی ایک بھونڈی کوشش اور ملت حنیفیہ کو اپنے مرکز ثقل سے دور لے جانے کی ایک ذلیل سازش ہے۔ جس کی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں۔ یقین کیجئے! ان میں سے ایک بھی پیغام اور استنباط ایسا نہیں ہے، جو عید الاضحیٰ سے مناسبت رکھتا ہو۔ ان رہنماؤں کے ’پیامات‘ سے ’استحصال‘ کی بو آتی ہے اور یہ ڈھیٹ لوگ ہیں، جو انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ خلیل اللہ کے مقاصد پر بوجھ بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو عید تمام سفلی خواہشات، شخصی اور گروہی مفادات کے گلے پر چھری پھیرنے کا درس دیتی ہے۔ اسی سے وہ اپنے گھٹیا مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ اس فرصت میں، ہم آپکو حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیاتِ طیبہ کے وہ مبارک پہلو دکھائیں، جو ’عید الاضحٰی‘ کے سمجھنے کے لئے مفید ہو سکتے ہیں، تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ حقیقتِ حال کیا ہے اور بو الہوس سیاسی شاطروں اور دوسرے مفاد پرستوں نے اسے کیا سے کیا بنا دیا ہے؟
حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پوری زندگی ’حنیفیت تامہ‘ کی عملی تفسیر اور تعبیر تھی، ماسوی اللہ کی جو چیز بھی توجہ اور سیر الی اللہ کی راہ اور سمت میں حائل ہوئی، انہوں نے ان سب کے گلے پر چھری رکھ دی اور خدا یابی اور خدا جوئی کے سلسلے میں جس ادا، جس وفا اور جس جس مال و متاع کی قربانی دینا پڑی دے ڈالی اور ایک لمحہ کے لئے بھی تامل نہ کیا، نہ سوچا اور نہ جھجکے، بس اُٹھے اور اس کے گلے پر چھری چلا دی، موروثی روایات کے گلے پر چھری، غیر اللہ کی ہر ترغیب و ہر ترہیب پر خنجر چلایا۔ وطن کا بت توڑا، خاندانی سیاسی برتری کی شہ رگ کاٹی، جھوٹے خداؤں کی خدائی کا پردہ چاک کیا۔ آگ کا سمندر پار کرنے کی نوبت آئی تو چھلانگ لگا دی۔ رفیقۂ حیات اور جگر گوشے کو بے آب و گیاہ اور لق و دق صحراؤں کے حوالے کرنے کا وقت آیا تو ’اللہ کے حوالے‘ کہہ کر چل دیئے۔ بڑھاپے کا سہارا آخری عمر کی عظیم تمنا اور قلب و نگاہ کی جنت نظر ٹھنڈک کے گلے پر ’چھری‘ چلانے کی ’ہوش رُبا گھڑی‘ آئی