کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 38
تصانیف: خواجہ نصیر الدین کو مروّجہ علوم میں مہارت تامہ حاصل تھی۔ اُن کا مطالعہ نہایت وسیع اور کتب خانہ بے نظیر تھا۔ ان کے کتب خانے میں چار لاکھ کے لگ بھگ کتابیں تھی، پروفیسر براؤن لکھتا ہے: Mongol army which destroyed Baghdad, He profited by the plunder of many libraries to rich his own which finally came to comprise according to Ibni Shakir more than ۴,۰۰,۰۰۰ volumes. [1] پروفیسر براؤن خواجہ کی تصنیفی صلاحیت کے بارے میں رقم طراز ہے۔ He was a most productive writer on religious, philosophical, mathematical, physical and astronomical subjects. [2] خواجہ نے عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں کتابیں لکھی ہیں۔ پروفیسر براؤن نے ’۵۶‘ تصانیف بتائی ہیں۔ تصانیف متنوع موضوعات پر ہیں تاہم زیادہ تر ریاضی، ہندسہ اور طب کے موضوع پر ہیں۔ چند اہم تصانیف کا تعارف ذیل میں پیش کیا جاتا ہے۔ ۱۔ شرح اشارات: خواجہ نے یہ کتاب بیس (۲۰) سال کے عرصہ میں لکھی ہے۔ ’اشارات‘ (مؤلفہ بو علی سینا) پر امام فخر الدین رازی نے اعتراض کیے تھے۔ خواجہ نے اپنی شرح میں امام رازی کے اعتراضات کا تفصیل سے جواب لکھا ہے۔ اور امام رازی کو تعصّب اور تنگ نظری کا شکار گردانا ہے۔ حالانکہ امام رازی، خواجہ کے استاد فرید الدین داماد نیشا پوری کے استاد تھے مگر خواجہ نے اس کے باوجود نہایت بے باکی سے امام رازی پر جرح کی ہے۔ ’شرح اشارات‘ کے بارے میں مولانا عبد السلام ندوی لکھتے ہیں ’اس (شرح) میں اُس (خواجہ) کی کوئی چیز طبع زاد نہیں ہے۔ اس سے پہلے علّامہ سیف الدین آمدی نے ’کشف التمویہات عن الاشارات والشبہات‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ جس میں امام رازی کے اعتراضات کے جوابات دیئے گئے تھے۔ محقق طوسی نے اس کتاب اور امام رازی کی شرح اشارات کے مباحث کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے۔ اور اس میں کوئی معتد بہ اضافہ نہیں کیا۔ [3]
[1] A LITERRY HISTORY OF PERSIA VOL II P. 485 [2] ایضاً [3] حکمائے اسلام جلد دوئم صفحہ نمبر ۲۵۴