کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 37
حکومت کے آخری ایّام تک قلعہ ’الموت‘ ہی میں رہے۔ خواجہ کو اگرچہ وزارت کا منصب حاصل تھا مگر اطمینانِ قلب نصیب نہ تھا۔ اسماعیلیوں کی جا و بے جا تعریف کرنا پڑتی تھی۔ جو ایک روحانی عذاب سے کم نہ تھی۔
خواجہ کی رہائی کا سبب ہلاکو خان بنا۔ جس نے ۶۵۴ ہجری میں ممالک غربی پر یلغار کی اکیس ہزار کے لشکر جرار کے ساتھ ہلاکو خان حملہ آور ہوا اور یکے بعد دیگرے اسماعیلیوں کے شہروں پر قبضہ کر لیا۔ خواجہ کے سمجھانے بجھانے پر رکن الدین خور شاہ نے ہلاکو کی اطاعت قبول کر لی اور اپنی اور خورشاہ کی جان بچالی۔
ہلاکو خان نے خواجہ اور ان کے ساتھیوں کا بہت اعزاز کیا۔ خواجہ کو اپنا مصاحب بنالیا۔ ہر معاملے میں وہ ان سے مشورہ لیا کرتا تھا اور ان کی رائے کا احترام کرتا تھا۔ خواجہ نے کئی نازک موقوعوں پر ہلاکو خان سے اپنے حسب منشا کام لیکر اپنے ہم مسلکوں کی جان بخشی کرائی۔
ایک بار ہلاکو نے ایک عہدے دار کے قتل کا حکم دیا۔ اس کے احباب و رفقاء دوڑے ہوئے خواجہ طوسی کے پاس گئے کہ اس کی جان بخشی کرائی جائے۔ خواجہ نے ہاتھ میں عصا، تسبیح اور اضطرلاب لیا اور اس کے پیچھے کچھ لوگ آتشدان میں عود و لوبان سلگاتے ہوئے چلے اس ہیئت کذائی میں جب یہ لوگ ہلاکو کے خیمے کے پاس پہنچے۔ تو خواجہ نے اور بھی زیادہ لوبان و عود جلایا۔ اور اضطرلاب کو بار بار اُٹھا کر دیکھتا۔ ہلاکو کو خبر ہوئی تو اس نے خواجہ کو خیمے کے اندر بلایا اور پوچھا واقعہ کیا ہے؟ خواجہ نے من گھڑت افسانہ شروع کیا کہ علم نجوم سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس وقت آپ پر ایک بڑی مصیبت آنے والی ہے۔ اس کے لئے ہم نے لوبان و عود جلایا اور دعائیں مانگیں کہ خدا وند اس مصیبت کو دور کر دے۔ اس سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ بادشاہ تمام سلطنت میں فرمان جاری کر دے کہ جو لوگ قید میں ہیں رہا کر دیئے جائیں گے۔ جو لوگ مجرم ہیں وہ معاف کر دیئے جائیں گے اور جن لوگوں کے قتل کا اعلان ہو چکا ہے ان کی جان بخشی کی جائے گی۔ چنانچہ ہلاکو اس افسانے سے اتنا متاثر ہوا کہ فرمان خواجہ کی حسب خواہش جاری کر دیا گیا۔ اور اس طرح وہ معزز عہدیدار قتل ہونے سے بچ گیا۔
بغداد پر حملے کے دوران میں عز الدین عبد الحمید بن ابی الحدید مصنّف شرح نہج البلاغہ اور ان کے بھائی موفق الدین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور یہ اندیشہ پیدا ہو گیا تھا کہ تہ تیغ کر دیئے جائیں گے۔ ابن علقمی نے خواجہ سے ان کی سفارش کی۔ وہ دربار میں گئے اور استدعا کی کہ ان کی جان بخشی کی جائے چنانچہ دونوں باعزت بری کئے گئے۔
مذہب: یہ یقینی طور پر معلوم ہے کہ وہ شیعی اور معتزلی تھا۔ صلاح الدین صفدی نے اس کی تصانیف میں ایک کتاب کا ذکر کیا ہے۔ جو اس نے ’فرقہ نضیریہ‘ کے لئے لکھی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ میرے خیال میں اس کا یہ عقیدہ نہ تھا۔ کیوں کہ ’نضیریہ‘، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خدا تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن ایک فلسفی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کیوں کر خدا تسلیم کر سکتا ہے۔