کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 36
انہیں یہ مغالطہ کیوں ہوا؟ خواجہ نصیر الدین طُوسی اور فخر الدین رازی (م ۶۰۶ھ) میں کوئی رشتہ نہیں تھا۔
تعلیم و تربیت: شرعی علوم میں خواجہ کو اپنے والد محمد بن حسن سے تلمذ حاصل تھا۔ دوسرے علوم میں انہوں نے متعدد اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا۔ فرید الدین داماد نیشا پوری، شیخ کمال الدین بن یونس موصلی اور معین الدین سالم بن بدران مصری معتزلی ان کے اساتذہ میں شامل ہیں۔
نصیر الدین آغاز شباب میں نیشا پور چلے گئے تھے۔ وہاں انہوں نے امام سراج الدین قمری کے حلقہ درس میں شامل ہونے کا شرف حاصل کیا۔ نیشا پور علمی و فکری مرکز تھا۔ علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ (م ۱۹۱۴ء) رقم طراز ہیں۔
’نیشا پور کی علمی حالت یہ تھی کہ اسلام میں سب سے پہلا مدرسہ جو تعمیر ہوا یہیں ہوا۔ جس کا نام مدرسہ ’بیہقیہ‘ تھا۔ امام الحرمین (امام غزالی) کے استاد نے اسی مدرسہ میں تعلیم پائی تھی۔ عام شہرت ہے کہ دنیائے اسلام میں سب سے پہلا مدرسہ بغداد کا نظامیہ تھا۔ چنانچہ ابن خلکان نے بھی یہی دعویٰ کیا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ فخر بغداد کے بجائے نیشا پور کو حاصل ہے۔ بغداد کا نظامیہ ابھی وجود میں نہیں آیا تھا کہ نیشا پور میں بڑے بڑے دار العلوم قائم ہو چکے تھے۔ ایک وہی بیہقیہ جس کا ذکر ابھی گزر چکا ہے۔ دوسرا سعدیہ، تیسرا نصریہ جس کو سلطان محمود کے بھائی نصر بن سبکتگین نے قائم کیا تھا۔ ان کے سوا اور بھی مدرسے تھے جن کا سرتاج نظامیہ نیشا پور تھا ۔ [1]
نصیر الدین طوسی نے نیشا پور کے علمی ماحول سے بھرپور استفادہ کیا اور علوم مرّوجہ میں کمال حاصل کیا۔
اسماعیلیوں کی قید میں: بلاد خراسان میں مغلوں کی چیرہ دستیوں کے پیش نظر خواجہ نصیر الدین، ناصر الدین محتشم کے بلانے پر قہستان چلے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اسماعیلیوں کے راہنما نے کچھ فدائیوں کو مامور کیا تھا کہ وہ خواجہ کو نیشا پور سے اغوا کر کے قلعہ ’الموت‘ میں لے آئیں۔ چنانچہ فدائیوں نے ڈرا دھمکا کر خواجہ کو ’الموت‘ آنے پر مجبور کر لیا۔ خواجہ عرصہ تک ناصر الدین کے پاس قہستان میں رہے۔
قہستان میں خواجہ نہایت آرام و اطمینان کی زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن وہ اسماعیلیوں کا کردار پسند نہ کرتے تھے۔ انہوں نے خلیفہ معتصم کی مدح میں قصیدہ لکھا اور ایک خط کے ساتھ بغداد بھیج دیا۔ یہ خط اور قصیدہ ابن علقمی کے ذریعے خلیفہ کے حضور پیش ہونا تھا۔ جو اس وقت وزارت کے منصب پر فائز تھا۔ یہ خط کسی طرح ناصر الدین محتشم کے جاسوسوں نے اڑا لیا اور خواجہ کو حوالہ زنداں کر دیا گیا۔
جب ناصر الدین قہستان سے ’لیموں دز‘ گیا تو خواجہ کو بھی ساتھ لے گیا۔ اس دوران میں اطلاع آئی کہ علاؤ الدین کو سوتے ہوئے قتل کر دیا گیا اس کی جگہ رکن الدین خور شاہ اورنگ نشین ہوا۔ خواجہ رکن الدین خورشاہ کی
[1] الغزالی صفحہ نمبر ۴