کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 35
اختر راہی سلسلہ مصنفین درس نظامی نصیر الدین طوسی طوس صوبہ خراسان (ایران) کا ایک قدیم شہر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد ’جمشید پیش دادی‘ نے رکھی تھی۔ زمانے کے انقلابات نے کئی بار ’طوس‘ کو اجاڑا اور بسایا۔ کیانی دور سلطنت میں طوس تباہ و برباد ہو گیا تھا۔ ایران کی حکومت کیخسرو کے ہاتھ آئی تو اس کے نامور سپہ سالار طُوس ابن نوذر بن منوچہر نے از سرِ نو آباد کیا۔ حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں ۲۹ھ مطابق ۶۴۹ء میں یہاں اسلامی پرچم لہرایا۔ طوس کی شان و شوکت عباسی دور حکومت میں عروج پر تھی۔ طوس میں حمید بن قحطبہ کا ایک مربع میل میں پھیلا ہوا وہ عظیم الشان محل تھا جس کے باغ میں امام علی رضا اور ہارون الرشید کے مزار تھے۔ ابن خردازبہ (م ۳۰۰ھ) کی روایت کے مطابق طوس کا سالانہ خراج سنتالیس ہزار آٹھ سو ساٹھ درہم یعنی ۱۱۹۶۵ روپے تھا۔ شاہانِ عجم کے زیر نگیں طوس کی کوئی علمی و ثقافتی اہمیت نہ تھی مگر اسلامی دور اقتدار میں طوس کی قسمت جاگ اُٹھی۔ نظام الملک طُوسی جیسا مدّبر اس کی پیشانی کا جھومر بن کر چمکا۔ فردوسی طُوس کی ایک نواحی بستی میں پیدا ہوا۔ امام غزالی رحمہ اللہ ضلع طوس کے ایک گاؤں میں متولد ہوئے۔ محقق نصیر الدین طُوسی کو بھی اسی خاک سے نسبت ہے۔ عہد عباسیہ کا نہایت بارونق شہر آج کھنڈروں کی صورت میں دعوتِ غور و فکر دے رہا ہے۔ طوس کے کھنڈروں میں پانچ سوافراد کی آبادی کا ایک گاؤں ’سجادیہ‘ ہے جس نے قدیم طوس کو کامل تباہی سے بچا رکھا ہے اور دنیا بھر کے سیاح فردوسی کے مزار پر حاضر ہونے کی خاطر ان کھنڈروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ولادت و خاندان: نصیر الدین طُوسی ۱۱؍جمادی الاولیٰ ۵۹۷ء؍۱۸ فروری ۱۲۰۱ء کو پیدا ہوا ۔[1] ابو عبد اللہ کنیت، محمد نام اور نصیر الدین لقب تھا۔ باپ کا نام بھی محمد اور دادا کا نام حسن تھا۔ سلسلۂ نسب یہ ہے محمد بن محمد بن حسن بن ابو بکر۔ نظامی بد ایوانی نے امام فخر الدین رازی (م ۶۰۶ھ) کو خواجہ نصیر الدین کا والد ظاہر کیا ہے ۔[2] نہیں کہا جا سکتا
[1] انسائیکلوپیڈیا آف اسلام [2] قاموس المشاہیر جلددوم ،ص: ۲۶۰