کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 34
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام: شیعوں کے معارف کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا ہیں؟ خدا سے بھی اونچے۔ اس پر مولانا نے فرمایا کہ اگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایسی ہستی ہے تو پھر خلافت کا مقام ان کے لئے فروتر ہے۔ آپ کے نزدیک ان کے لئے تو عرش و کرسی چاہئے یعنی ’خدا کا سٹیج۔ (ایضاً ص ۲۶ تا ص ۳۶)
اس کا جواب انہوں نے کیا دیا؟ معارف آپ کے سامنے ہے۔
شیعوں کے آئمہ معصومین: شیعہ کہتے ہیں کہ ائمہ معصوم ہوتے ہیں۔ مولانا موصوف نے شیعوں کی اپنی تصریحات کے آئینہ میں ان کو دکھایا ہے کہ کیا معصوم ایسے ہوتے ہیں؟ ص ۳۱ تا ص ۳۵۔ معارف میں اس کا کتنا ذکر ہے خود ہی ملاحظہ فرما لیں۔
شیعوں کا قرآن و حدیث: قرآن و حدیث کے سلسلے میں شیعوں کا کیا نظریہ ہے؟ زبیدی صاحب نے پوری تفصیل دی کہ ان کا اس قرآن پر ایمان نہیں یہ کسی اور قرآن کے منتظر ہیں۔ (محدث ص ۳۰ تا ۳۷)
معارف کو دیکھیے! اس موضوع کا بھی اس میں کوئی نشان نہیں ملتاً
ہم بیعت کرنے کو تیار ہیں:
مولانا زبیدی صاحب نے بڑے اچھوتے انداز میں اس پر روشنی ڈالی ہے کہ! قرآن آپ کا غائب، امام بھی غائب، تقیہ آپ کا ایمان، آخر وہ کس منہ سے شیعی نظامِ سیاست کی طرف دنیا کو دعوت دیتے ہیں۔ اگر کوئی آپ کی بات مان لے تو یہاں آکر کیا کرے گا۔ ملک کا بنیادی دستور غائب، امام بھی ندارد۔‘‘ پھر بیعت کس کی اور کاہے کے لئے؟ص ۳۵ تا ۳۷ ملاحظہ فرمائیں۔
اس کی طرف کتنی توجہ فرمائی؟ وہ ان سے پوچھیے!
تقیہ: مولانا نے ان پر اعتراض کیا ہے کہ: تقیہ ان کے مذہب کی جان ہے اس لئے خلافت تو بڑی بات عام معاملات میں بھی ان پر بھروسا کرنا مشکل ہے۔
جناب غیاث الدین صاحب نے اس کی تردید نہیں فرمائی بلکہ مزید تائید فرمائی ہے مگر اس دعوے کے ساتھ کہ تمہارے فلاں بزرگ نے بھی ایسا لکھا ہے۔ یہ بات کہ تمہارے بزرگوں کا کیا نظریہ ہے یہ موضوع الگ۔ جناب مدیر معارف نے بہرحال اس کا اعتراف کر لیا ہے کہ تقیہ ان کے نزدیک کار ثواب ہے۔ فہد المقصود! ہم نے بھی تو یہی کہا ہے کہ تقیہ ان کا مذہب ہے پھر غصہ کاہے کا؟
یہ وہ مسائل تھے جو معارف اسلام سے تنقیحات کی شکل میں مولانا نے پیش کیے تھے۔ قارئین اندازہ فرمائیں کہ معارف اسلام نے اپنے صفحات میں ان کی کیا وضاحت پیش کی اور کس کس کا جواب دیا ہے؟؟