کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 32
بات نہیں ہے۔ نیز تقریر و تحریر کا فرق بھی واضح ہے۔ تحریر جب بھی نظر کے سامنے آئے تازہ ہی کی مانند اثر کرتی ہے۔ ہمیں تعجب ہے کہ جناب غیاث الدین صاحب اگر ’معارف اسلام‘ کی تحریروں کا اثر اتنا وقتی اور فوری زوال پذیر سمجھتے ہیں تو اس صحافت سے کیا فائدہ؟ لکھنے والے کو تو بہت سوچ سمجھ کر لکھنا چاہئے تاکہ بعد میں پشیمانی نہ ہو کیونکہ تحریریں نہ صرف دائم العمر بلکہ دنیا سے جانے کے بعد بھی تازہ ہی رہتی ہیں۔ کما قال القائل
یلوح الخطّ فی القرطاس دھرا وکاتبه رميم في التراب
یعنی کاغذ میں تحریر زمانہ بھر جھلکتی رہتی ہے حالانکہ اس کے کاتب کی ہڈیاں بوسیدہ ہو چکتی ہیں۔
واقعی جناب ایڈیٹر ‘معارفِ اسلام‘ تحریر کی اتنی سی اہمیت سے ناواقفی کے بعد اپنی صحافت دانی کے بڑے زعم میں معذور ہی نظر آتے ہیں۔ ایسوں کو تو کوئی سکھانے سے بھی رہا۔
علاوہ ازیں آپ ہی بتائیے کہ شیعہ حضرات آج بھی بنو امیہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کی تیرہ چودہ صد سالہ پرانی آویزش کو بھولی بسری قرار دینے کے لئے تیار نہیں۔ جب محرم کے دن آتے ہیں تو ان کا لہو گرم ہو جاتا ہے اور آپ وہ کچھ کر گزرتے ہیں کہ رہے نام اللہ کا! اگر اس ساری نوحہ گری اور سینہ کوبی کا جواز تیرہ صدیوں بعد بھی تبّروں کی صورت میں آپ کے ہاں تسلیم ہے تو ایسی تحریر کو آپ ’ناقابلِ مواخذہ‘ منوانے پر تلے بیٹھے ہیں جسے شائع ہوئے ابھی تیرہ سال بھی نہیں گزرے۔ یاللعجب!!
محدث کا عنوان: جناب غیاث الدین صاحب کو محدث کے شمارہ محرم و صفر ۱۳۹۳ھ میں عنوان فرضی خلیفہ بلا فصل۔۔۔ چھپ جانے سے ایک بے سروپا مسئلے پر جولانیٔ قلم دکھانے کا نادر موقعہ بھی مل گیا اور انہوں نے اس یقین پر کہ ’معارف اسلام‘ کا کوئی قاری ’محدث‘ کا ہے کو دیکھتا ہو گا اپنے زعم میں میدان مار لیا ہے کہ یہ عنوان ہی درست نہیں حالانکہ نہ صرف اسی مضمون کی دوسری قسط میں اس ’سہو کتابت‘ کا ازالہ کر دیا گیا اور ادارتی نوٹ کی صورت میں بھی تصحیح کر دی گئی تھی بلکہ اسی پہلی قسط کی دوسری سطر میں ’خلیفہ بلا فصل اور وصی رسول اللہ‘ کا حوالہ بھی موجود ہے۔ اس کے بعد اکتوبر ۱۹۷۴ء مطابق رمضان ۱۳۹۴ء کے شمارہ معارفِ اسلام میں اس عنوان سے بحث بے سود ہے۔ قارئین کے لئے واضح ہے کہ یہ ادھر ادھر کی باتوں میں الجھاؤ اور رکج بحثی صرف اس غرض سے ہے کہ اصل بحث سے تو کنارہ رہے اور پڑھنے والوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ جناب غیاث الدین نے اکیس صفحات میں جواب دیا ہے۔
علمی ثقاہت کا لحاظ: جناب غیاث الدین صاحب سے درخواست کی گئی تھی کہ علمی ثقاہت کو ملحوظ رکھا کریں اور خانہ ساز مفروضات سے پہلو تہی کریں۔ مثلاً جناب نے لکھا ہے کہ