کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 31
کے دنوں میں اگر آپ کو اپنی فارغ البالی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہی تھا تو کم از کم ان مسائل کی طرف تو توجہ دیتے جو زیر بحث آئے تھے اور جن کی نشاندہی مولانا زبیدی صاحب نے معارفِ اسلام جون جولائی ۷۳ھ کے تعاقب کے جواب محدث کے سالِ رواں کے دو شماروں میں تفصیلاً کر کے اپنے موقف کی وضاحت کی تھی۔ دوسری قسط کے آخر میں یہ بھی فرمایا تھا کہ اصولی باتوں کی بجائے ادھر ادھر کی نوک جھونک پر وقت ضائع کرنا ہے تو ہم الوداعی سلام کہتے ہیں۔ میری سرِ راہ مولانا عزیز زبیدی صاحب سے ملاقات ہوئی تو معارف کے تازہ شمارہ اکتوبر ۷۴ء کے تازہ نگارشات اور مندرجات کی طرف توجہ دلائی۔ مولانا موصوف نے فرمایا کہ اگر جناب غیاث الدین صاحب اصولی مسائل اور علمی مباحث کی طرف آتے تو ہم بھی ان میں دلچسپی لیتے لیکن اب نوک جھونک کے جس میدان میں وہ الجھانا چاہتے ہیں وہ سب بے سود ہے۔ پھر ہماری تو پوزیشن یہ ہے کہ جب انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ تاریخی اور دینی مسائل میں ثقاہت اور علمی احتیاط کو ملحوظ رکھیں تو سیخ پا ہو جاتے ہیں کہ مجتہدوں کو یہ مشورہ دینے والا کون؟ یہ ہمیں جاہل بتاتا ہے۔ پھر تعجب یہ کہ اگر دوست، معزز، فاضل اور محترم کے الفاظ سے ان کا ذِکر کیا جائے تو بھی برا مناتے ہیں۔ معاصر موصوف کی اس زود رنجی اور جذباتیت میں تبادلۂ خیال کیا لطف دے گا؟ میرا جواب تو یہ ہے کہ محدث اور معارفِ اسلام کے دونوں پرچے سامنے رکھ کر وزن کر لیا جائے۔ ہم کچھ عرض کریں گے تو شکایت ہو گی۔ مولانا زبیدی صاحب سے ملاقات کے بعد میں نے دونوں کے متعلقہ شماروں کا موازنہ کیا تو مولانا زبیدی صاحب کے پیش کردہ حقائق اور بنیادی سوالات کا وزن معلوم ہوا۔ کاش کہ جناب غیاث الدین صاحب طعن و تشنیع کی بجائے شیعہ سے منسوب عقائد و افکار کی حقیقت سے انکار کرتے بلکہ وہ و سٹپٹاتے بھی ہیں اور تسلیم بھی کرتے چلے جاتے ہیں۔ کہیں چڑ کر اور کہیں مسائل سے پہلو تہی کر کے یعنی خاموشی اختیار کر کے۔ تاہم موازنہ میں سہولت کے پیش نظر عام قارئین کے لئے چند امور پیش کیے دیتا ہوں تاکہ جناب غیاث الدین صاحب کی طول طویل تحریر کی نقاب کشائی ہو سکے۔ تازے شمارے کی بات: تقریباً ہر سال ’معارف اسلام‘ علی رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نمبر نکلتا ہے۔اس کے پےدر پے چرکوں سے قاری کے زخم گہرے ہوتے رہتے ہیں۔ عموماً باتیں وہی ہوتی ہیں جو پہلے پرچوں میں آچکیں جن سے پچھلا تاثر بھی ہرا رہتا ہے گویا لفظوں کا ہیر پھیر تو ممکن ہے لیکن ایک سے مفاہیم و مطالب کی بار بار رٹ ہوتی ہے اور پرانے مغالطات دہرائے جا رہے ہوتے ہیں اس لئے جناب غایث الدین صاحب کا اس بات پر جزبز ہونا کہ کسی سابقہ اشاعت یا اشاعتوں پر تبصرہ کیوں کیا گیا معقول