کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 3
کتاب: محدث شمارہ 38
مصنف: ڈاکٹر عبدالرحمٰن مدنی
پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی،لاہور
ترجمہ:
فکر و نظر
عید الاضحٰے۔ یادگارِ حنیفیّت
ترجمانِ خلّت
عید قربان آتی ہے تو شاطر لوگ، عوام سے کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ:
قوم اور ملک کے لئے اپنے مفاد کی قربانی دو، یعنی جو ہم کہتے ہیں، بس اس کے لئے سر کٹانا پڑے تو کٹا دو۔ اجڑنا پڑے تو اجڑ جاؤ۔ لٹنا پڑے تو لٹ جاؤ۔ بہرحال اب تمہارا امتحان ہے کہ عیدِ قربان کا حق کیسے ادا کرتے ہو؟ ایثار اور قربانی کا ثبوت دیتے ہو یا گوشت کھا، پی کر ہمیں بھی بھول جاتے ہو۔
کارخانہ دار مزدوروں سے کہنا شروع کر دیتا ہے کہ، ملک اور قوم کا مستقبل اسی سے وابستہ ہے کہ: تم رات دن محنت کرو، پیداوار زیادہ کرو اور اپنے آرام اور ضرورتوں کی قربانی دے کر زیادہ سے زیادہ خدمت کا ثبوت دو۔ اس تلقین سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ، عید قربانی کے نام پر ان مزدوروں کو قربانی کا بکرا بنا لیا جائے، تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔
حکمران، قوم کے نام اپنے پیغام میں کہتے ہیں: وقت بڑا نازک ہے، حالات دگرگوں ہیں، دشمن تاک میں ہے، ان کے ایجنٹ (یعنی ان کے سیاسی مخالف) ملک کے گوشے گوشے میں گھس گئے ہیں۔ مہنگائی کی باتیں چھوڑ دو، ایثار سے کام لو، دشمن اس سے ناجائز فائدہ اُٹھائے گا، بھوک ننگ کی باتیں مت کرو، عید قربان کا مطلب ہے قربانی دو، پیٹ پر پتھر باندھنے پڑیں تو دریغ نہ کرو۔ غنڈہ اور سماج دشمن عناصر کو ہم بھی ختم کرنا چاہتے ہیں، تم بھی آگے بڑھو، سر کٹاؤ اور ان کا مقابلہ کرو، قربانی کا وقت ہے بزدلی مت دکھاؤ۔ مقصد یہ ہے، کہ ہمیں نہ پوچھو، ہم سے نہ الجھو، ہمارا طوقِ غلامی اتار کر پھینکنے کی کوشش نہ کرو۔ قربانی کا ثبوت دو۔
مزدور اُٹھتا ہے کہ: سرمایہ داروں کے گریبان چاک کر ڈالو، اپنے حقوق کے لئے خون کا آخری قطرہ بہادو۔ کارخانہ داروں کا فرض ہے کہ وہ ایثار اور قربانی کے جذبات سے کام لیں، جو پیداوار ہے وہ گھر لے کر نہ جائیں، ہم نے پیدا کی ہے ہمیں بانٹ کر جائیں، یعنی قربانی کا بکرا ہمیں نہ بناؤ، تم بنو!