کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 29
بت شکن اُٹھ گئے، باقی جو رہے بُت گر ہیں تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں بادہ آستام نئے بادہ نیا خم بھی نئے حرمِ کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے کون ہے تارک آئینِ رسول مختار؟ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار ہو گئی کس کی نگہ طرزِ اسلاف سے بیزار قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں کچھ بھی پیغامِ محمد کا تمہیں پاس نہیں شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟ ہر کوئی مست مۓ ذوقِ تن آسانی ہے تم مسلمان ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے حیدری فقرہے نے دولتِ عثمانی ہے تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں، بگڑی اب بھی بن سکتی ہے ؎ آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا یقین کیجئے! عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری میرے درویش! خلافت ہے جہانگیر تری ما سوا اللہ کے لئے آگ ہے تکبیر تری تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں