کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 28
اس کے لئے پھر دونوں جہانوں میں خطرے والی کوئی بات نہیں۔ ﴿فَلَه اَجْرُه عِنْدَ رَبِّه وَلَا خَوْفٌ عَلَيْھِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ﴾ (پ۱۔ بقره۔ ع۱۳) جس نے یوں رب اور رسول کی اطاعت نہ کی تو پھر ان کے لئے چاروں طرف آگ ہی آگ ہے۔ ﴿مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَه فَاِنَّ لَه نَارَ جَھَنَّمَ﴾ (پ۲۹۔ الجن۔ ع۱) نیز فرمایا کہ دنیا کی زندگی بھی شکنجہ میں رہے گی۔ ﴿وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَه مَعِيْشَةً ضَنْكًا ﴾(پ۱۶۔ طہ۔ ع۷) یہ ہے وہ اسلام جس کے حامل سدا گردن فراز اور اوج ثریا پر فائز رہ سکتے ہیں۔ کیا آج کا مسلمان بھی اسی اسلام کا حامل ہے؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں ہے تو پھر ان نتائج کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے جو صرف ’مسلم حنیف‘ کے لئے مخصوص اور موعود ہیں۔ تسلی رکھیے! اللہ تعالیٰ کو تمہیں دکھ دینے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر اب بھی تم اس کے ممنون ہو رہو تو وہ اب بھی بڑا قدر دان ہے، سینہ سے لگا لے گا۔ ﴿مَا یَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَكَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ وَكَانَ اللّٰہُ شَاكِرًا عَلِيْمًا ﴾(پ۶۔ النساء۔ ع۲۱) باقی رہے ہمارے یہ نعرے، جلسے جلوس اور چند اسلامی رسومات کی پابندی؟ سو پہلے تو وہ ’آدھا تیتر آدھا بٹیر کا نمونہ ہے، یعنی دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔ اس کے علاوہ، وہ بھی پورے حضورِ قلب کے ساتھ نہیں ہو رہا، بلکہ اس کا سارا رنگ ’ذہنی تعیش‘ کا رنگ ہے۔ اس لئے آپ نے ملاحظہ فرمایا ہو گا کہ اسلام کے نام کے جس کام میں ’رونق میلے‘ ہوں گے وہاں بچے سے لے کر بوڑھے تک سب سرگرم نظر آئیں گے اور جہاں ‘نمائش‘ کے یہ مواقع یا استحصال کے امکانات کم ہو جاتے ہیں وہاں ’اسلام کا رُخِ زیبا‘ لے کر بھی نکلیں گے تو آپ کو ایک بھی ’رفیقِ سفر‘ نظر نہیں آئے گا، خاص کر وہ تنہائیاں جہاں رب سے مناجات ہوتی ہے اور ایک ’مسلم حنیف‘ کی تخلیق اور تعمیر بھی ممکن ہوتی ہے، آپ کو بہرحال ویران اور سنسان نظر آئیں گی، کیونکہ اصل مرض یہ ہے کہ ان کو خدا نہیں چاہئے، نقد چاہئے، فرد کا انتظار کون کرے؟ اس لئے قصور اسلام کا نہیں، نام لیواؤں کا ہے کہ انہوں نے اسلام کی شرم نہیں رکھی اور اسلام کے پیچھے چلنے کے بجائے اسلام سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اب ان کے پیچھے چلے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں نتیجہ وہی برآمد ہو سکتا ہے جس کا آپ آج شکوہ کر رہے ہیں۔ جو اب شکوہ کے یہ چند بند آپ بھی ایک دفعہ مکرر پڑھ لیں، شاید ایمان تازہ ہو جائے۔ ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خُوگر ہیں امّتی باعثِ رسوائی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہیں