کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 27
﴿فَاِلٰھُکُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَلَه اَسْلِمُوْا﴾ (پ۱۷۔ الحج۔ ع۵) جیسے ابراہیم خلیل اللہ کا طریقہ تھا۔ ﴿وَاتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرَاھِيْمَ حَنِيْفًا ﴾(پ۵۔ النساء۔ ع ۱۸) اور اس نے حضرت ابراہیم کے طریقے کا اتباع کیا جو سرتاپا حنیف تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریقہ اور نعرہ یہ تھا۔ ﴿اِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْن﴾ (پ۷۔ الانعام۔ ع۹) (حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا) میں نے تو ایک ہی کا ہو کر اپنا رُخ صرف اسی (ذات پاک) کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور (یقین کیجئے) میں ’ہرجائی‘ (مشرکوں میں سے) نہیں ہوں۔ جب یہ سٹیج آئی تو رب نے بھی آپ کو اپنا ’دوست اور یار‘ بنا لیا۔ ﴿وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرَاھِيْمَ خَلِيْلًا ﴾(پ۷۔ النساء۔ ع۱۸) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں سے فرما دیجئے کہ اگر میرے طریقے اور طرزِ حیات پر تمہارا دل نہیں جمتا تو نہ سہی، میں تو بہرحال تمہارے باطل معبودوں کے پیچھے چلنے سے رہا۔ میں تو صرف اس کا غلام رہوں گا جس کے قبضے میں تمہاری جان ہے، مجھے تو حکم ہوا ہے کہ میں اس کے ماننے والوں میں سے ہو رہوں اور دین حنیف پر قائم رہوں، ہرجائی نہ بنوں اور نہ ہی اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کے سامنے ہاتھ پھیلاؤں۔ ﴿قُلْ يٰٓاَيَّھَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ فَلَا اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰكُمْ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَاَنْ اَقِمْ وَجْھَكَ لِلْدِّيْنِ حَنِيْفًا وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ. وَلَا تَدْعُ مِنَ اللّٰهِ﴾ الاية (پ۱۱۔ يونس۔ ع۱۱) چنانچہ مسلمانوں سے فرمایا: ﴿اَنِيْبُوْا اِلٰي رَبِّكُمْ وَاَسْلِمُوْا لَه ﴾(پ۲۴۔ زمر۔ ع۶) اپنے رب کی طرف رجوع ہو جاؤ اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دو۔ تو جو (یوں) مسلمان ہو گیا (بس) اس نے سیدھا رستہ ڈھونڈھ نکالا۔ ﴿فَمَنْ اَسْلَمْ فَاُوْلٰٓئِكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا﴾ (پ۲۹۔ الجن۔ ع۱)