کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 26
حافظ عليھا حفظ دينه ومن ضيعھا فھو لما سواھا اضيع (رواه مالك باب وقوت الصلوٰة) اس سے معلوم ہوا کہ بے نماز لیڈر سے دین و ملت کی کسی قسم کی بہتری کی توقع کرنا فضول ہے۔ گو بظاہر ایسا نظر آئے کہ ترقی ہو رہی ہے لیکن انجام کار پوری قوم اپنی روایات سے اجنبی اور اپنے مرکزی محور سے بہت دور جا پڑے گی۔ ہو سکتا ہے کہ غیر مسلموں کی طرح وہ بھی ملک اور قوم کی دنیا بنا ڈالیں لیکن ایک مسلم کی حیثیت سے ان سے دین و ملت کو فروغ نصیب ہو، مشکل ہے۔ جیسا کہ اب تک ان ظالموں کو برداشت کرنے کی سزا ہم پا رہے ہیں کہ گو ہم جیتے ہیں لیکن ایک مسلم کی حیثیت سے بالکل نہیں۔ بالکل نہیں! حالانکہ ہمارا معیار یہی ہے اور صرف یہی۔ (ج) کیا اسلام پرانا ہو گیا ہے: اسلام ازلی اور ابدی ہے۔ ایسی شے کبھی بھی کہنہ نہیں ہوتی۔ اسلام اور اس کا نظام آج بھی ایسا ہی فطری اور توانا ہے جیسا کہ وہ روزِ اول تھا۔ باقی رہی مسلم کی نکبت، ادبار اور تنزلی؟ سو وہ اس لئے نہیں کہ، مسلمان حاملِ اسلام تھے، اس لئے ان کو یہ سزا ملی۔ حقیقت یہ ہے کہ بقول جارج برنارڈ شاہ: عیسائیوں نے عیسائیت چھوڑی تو ترقی کی اور مسلمانوں نے ’اسلام‘ کو چھوڑا تو وہ پستی اور تنزل کے گڑھے میں گرے۔ اسلام کو اپنانے کی بنا پر تنزل ہوتا تو کہہ سکتے تھے کہ اسلام لے ڈوبا، حالانکہ یہاں معاملہ ہی اس کے برعکس ہے۔ اصل میں اسلام کے سلسلے میں غفلت ہی ہمیں لے ڈوبی ہے۔ اصل میں یہ غلط فہمی، اسلام نافہمی سے پیدا ہوئی ہے، یار دوستوں نے اسلام کا مفہوم، عام پوجا پاٹ اور نعرہ تصور کر لیا ہے، اس لئے وہ سمجھنے لگے ہیں کہ، جب اسلام کے نام پر جلسے ہوتے ہیں، وعظ ہوتے ہیں اور کچھ لوگ کچھ درود وظیفے اور عبادتیں بھی کر لیتے ہیں تو پھر مسلمان نے ترقی کیوں نہ کی اور اسلام نے ان کو فرش سے اٹھا کر عرش پر کیوں نہ پہنچا دیا؟ حالانکہ یہ اسلام کا بالکل عجمی مفہوم ہے جو عموماً ایک مذہب کے بارے میں فرض کر لیا جاتا ہے۔ اسلام کا اسلامی اور قرآنی مفہوم اس سے قطعی مختلف ہے۔ اسلام کا قرانی مفہوم یہ ہے کہ پورے حضورِ قلب کے ساتھ اپنا پورا رخ اپنے اللہ کی طرف کر لیا جائے اور پھرتا آخر اسی کے ہو رہیں۔ ﴿بَلٰی مَنْ اَسْلَمْ وَجْھَه لِلّٰهِ وَھُوَ مُحْسِنٌ﴾ (پ۱۔ بقره۔ ع۱۲) واقعی بات تو یہ ہے کہ جس نے خدا كے آگے سر تسليم خم كر ديا اور پورے حضور قلب كے ساتھ۔ کیونکہ اِلا (سچا خدا) صرف ایک ہے، اس لئے تم بھی صرف اسی کے ہو رہو!۔