کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 25
جب واپس ہوئے تو سیدھے مدینے پہنچے، یہ قصہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سنایا۔ آپ نے فرمایا۔ اس سرزمین کا برا ہو جس میں آپ نہ ہوں، آپ واپس تشریف لے جایں اور گورنر کو لکھا کہ بات وہی ہے جو حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے، لوگوں کو اس کے مطابق حکم دیں۔ آپ کو حضرت عبادہ پر حکومت کا کوئی اختیار نہیں۔ لا امرۃ لک علیه واحمل الناس علٰي ما قال فانه ھو الامر (ابن ماجه ص ۱۲، ۱) غرض یہ ہے کہ اتنی بڑی صریح خلاف ورزی کے باوجود آپ نے ان کے خلاف محاذ نہیں بنایا لیکن ذاتی طور پر اس کا بائیکاٹ ضرور کیا کیونکہ خواص کا یہ فریضہ ہے کہ حکمرانوں کو سیدھی راہ پر رکھیں۔ اگر نہ رہیں تو ذاتی حیثیت میں ان کا بائیکاٹ ضرور کریں تاکہ وہ راہ پر آجائیں۔ مسلم شریف میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ تمہارے بہترین حکمران وہ لوگ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں اور ایک دوسرے کے لئے دعاگو رہو، اور بدترین وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں، تم ان پر لعنت کرو اور تم پر لعنت کریں۔ صحابہ نے عرض کیا تو اس صورت میں ہم ان کی بیعت فسخ نہ کر دیں۔ آپ نے فرمایا: لا، ما اقاموا فیکم الصلٰوۃ لا ما اقاموا الصلٰوۃ فیکم۔ نہیں نہیں، جب تک وہ تم میں نماز قائم کریں۔ دوبار فرمایا: پھر فرمایا: ہاں ان کی سیئات سے نفرت کریں لیکن ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچنے کی کوشش نہ کریں۔ (مسلم) گویا کہ ان کو برداشت کرنے کی صرت ایک شرط ہے کہ نماز خود بھی پڑھتا ہو اور لوگوں میں بھی اس کو قائم کرتا ہو۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ نماز کے تارک رہیں تو خوش دلی کے ساتھ ان کو برداشت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ صحابہ نے کہا کہ تو پھر ہم ان کے خلاف جہاد نہ کریں فرمایا: لا ما صلوا لا ما صلوا (مسلم) جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔ ایسا نہ کیجیو۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ان کو دل میں جگہ نہ دیں۔ ای من کرہ بقلبه وافكر بقلبه (مشكوٰة۔ ام سلمة) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام عاملوں اور گورنروں کو یہ حکم کیا تھا کہ جو نماز کے احکام یاد نہیں رکھتا اور نہ وقت پر اسے ادا کرتا ہے مجھے ان کی دوسری کسی ڈیوٹی اور ذمہ داری پر بھروسہ نہیں ہے۔ یعنی وہ دوسری تمام صلاحیتوں کے باوجود ’نا اہل‘ تصوّر کیے جائیں گے: الفاظ یہ ہیں: ان عمر بن الخطاب کتب الی عماله ان اھم امركم عندي الصلوٰة فمن حفظھا و