کتاب: محدث شمارہ 38 - صفحہ 24
ہوتے تو یقین کیجئے، اس کو ایک ’شمر‘ بھی نہ ملتا۔ کیونکہ شمر بہت بڑا بد سہی لیکن ذوق کے لحاظ سے وہ اس قدر ننگا نہیں تھا کہ وہ ایک بے نماز کو بھی اپنا پیشوا بناتا۔ بہرحال بقولِ علامہ اقبال ؎ یہ زائرانِ حریم مغرب ہزار رہیر بنیں ہمارے ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں سیاسی لیڈر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک سرکاری جماعت کے رہنما ہوتے ہیں پہلے ان کو سمجھائیں اگر راہ پر نہ آئیں تو ان کی قیادت کو قبول کرنے سے قطعی انکار کر دیں۔ کیونکہ جماعت کی کامیابی کی صورت میں بالآخر یہی لوگ بر سرِ اقتدار آئیں گے جن میں سرتاپا دین اور آخرت کا ضیاع ہے۔ ان کے مظالم اور نہ کردینوں سے تعاون کریں گے تو ایمان ضائع ہو گا، خدا ناراض ہو گا اور آخرت تباہ ہو گی۔ اگر ان کی سیئات کو خاموش ہو کر برداشت کریں گے تو جو انجام معاونین کا ہو گا وہی آپ کا ہو گا۔ جیسا کہ سبت کے دن یہود کا ہوا۔ اگر ان کی مخالفت کریں گے تو اپنی دنیوی عافیتوں کو امتحان میں ڈالنے والی بات ہو گی جو بہرحال خطرے سے خالی نہیں۔ استقامت رہے یا نہ۔ اگر وہ سرکاری جماعت کے رہنما اور حکمران بھی ہیں تو نہایت خیر خواہی کے ساتھ پہلے ان کو تبلیغ کی جائے اگر یہ حکمتِ عملی کامیاب نہ رہے تو عوام کو صحیح صورتِ حال اور ان کے فرائض سے آگاہ کیا جائے، ہو سکتا ہے کہ عوامی دباؤ کی وجہ سے ان کی زندگی کا کانٹا بدل جائے، اگر یہ بھی ممکن نہ رہے تو ملک میں پارلیمانی طریقے پر عوام کو تیار کیا جائے ہو سکتا ہے کہ جمہوری طریقے پر ’صالح انقلاب‘ کی کوئی صورت پیدا ہو جائے۔ بہرحال باغیانہ سرگرمیوں کے ساتھ بے دین اور بے نماز حکمرانوں کو بھی بدلنے کی کوشش سے پرہیز کیا جائے کیونکہ اس سے ملک کمزور ہوتا ہے اور قوم کی ہوا اکھڑ جاتی ہے۔ ہاں ملک جو خواص ہیں وہ ازراہِ تبلیغ ان حکمرانوں کی مصاحبت، تائید اور حمایت سے پرہیز کریں اور احتجاجاً ان کا بائیکاٹ کریں، جیسے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا، آپ نے دو آدمیوں کو سمجھایا کہ اشرفیوں سے سونا اور دراہم سے چاندی نہ خریدیں۔ کیونکہ یہ ’’ربا‘‘ (سود) ہے، میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنا، فرماتے تھے کہ، سونا سونے کے بدلے نہ خریدو نہ بیچو مگر برابر سرابر، نقد بہ نقد۔ لا تبتاعوا الذھب بالذھب الا مثلا بمثل لا زیادۃ بینھما ولا نظرۃ (ابن ماجه) وقت کے حکمران بولے: یہ صرف ادھار کی صورت میں ہے۔ حضرت عبادہ نے فرمایا: کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور آپ اپنا خیال بتاتے ہیں، اگر اللہ نے موقع دیا تو میں جا کر آپ کے علاقہ میں واپس نہیں آؤں گا۔ لئن اخرجنی اللّٰہ لا اساکنک بارض لک علی فیھا اِمرۃ (ابن ماجه)